اسلام آباد: وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ جہاں معیشت کی بحالی ہو رہی ہے وہاں ایسے موقع پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام سے پاکستان کا نکلنا ممکن نہیں ہے۔
ویلیو ایچ ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر طلحہ محمود کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سامنے ایک بیان میں شوکت ترین نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ایف بی آر کے گرفتاری کے اختیارات سے متعلق مجوزہ سیکشن 203-اے کی زبان تبدیل کردی جائے گی اور تمام قابل اعتراض چیزیں اس میں سے ختم کردی جائیں گی۔
اس سے قبل کمیٹی نے متفقہ طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے گرفتاری کے اختیارات مسترد کردیے تھے۔
وفاقی وزیر نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت نے مالی سال 2023 میں معیشت میں 7 فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ بجٹ 22-2021 آئی ایم ایف کے تجویز کردہ ٹیکس اقدامات سے بھرا ہوا ہے جو غریب مخالف ہیں اور مہنگائی کو بڑھائیں گے۔
شوکت ترین نے کہا کہ ‘اس وقت آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلنا ممکن نہیں ہے، ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور کیا گیا، اس بار آئی ایم ایف کا رویہ ہمارے ساتھ دوستانہ نہیں تھا اور پروگرام بہت سخت تھا’۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں اقدامات پائیدار ہوں گے اور ریونیو میں اضافہ ہوگا، ‘آئی ایم ایف پاکستان سے یہی چاہتا ہے’۔
شوکت ترین نے کہا کہ ملک کو جامع اور پائیدار ترقی کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے ہمیں ریونیو کو بڑھانے اور زراعت سمیت پیداواری شعبوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے ، ملک اس وقت کھانے پینے کی اشیا کا درآمد کنندہ بن چکا ہے اور اسی وجہ سے اس کی بین الاقوامی قیمتوں کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑ رہا ہے۔
انکم ٹیکس آفیسر کو کسی بھی ٹیکس دہندگان کی گرفتاری کا اختیار دینے کے معاملے پر شوکت ترین نے کہا کہ ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دینے کا مقصد گرفتاریاں نہیں بلکہ ‘اس قانون کا مقصد ٹیکس نادینے والوں میں خوف پیدا کرنا ہے’۔
تاہم وفاقی وزیر نے تجویز دی کہ حکومت اس مخصوص معاملے پر کمیٹی کی سفارش پر غور کرے گی۔