زیادتی کے شکار زیادہ تر بچوں کا تعلق 6-15 سال کی عمر سے ہے

اسلام آباد: سال 2020 کے دوران ملک کے چاروں صوبوں، وفاقی دارالحکومت، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بچوں کے خلاف 2 ہزار 960 بڑے جرائم رپورٹ ہوئے۔

ویلیو ایچ ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کے جاری کردہ اعدادو شمار کے حوالے سے بتایا گیا کہ پاکستان میں روزانہ 8 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اس میں 51 فیصد متاثرین بچیاں اور 49 فیصد بچے ہوتے ہیں

2020 کے ظالمانہ اعداد و شمار کے عنوان سے جاری کردہ اس رپورٹ میں بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار کو مرتب کیا گیا ہے جس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، اغوا، لاپتا بچے اور بچپن میں شادیوں کے اعداد و شمار شامل ہیں۔’رواں سال ملک میں یومیہ 8 سے زائد بچے جنسی استحصال کا نشانہ بنے‘مذکورہ رپورٹ تنظیم ‘ساحل’ نے گزشتہ برس 84 قومی اور علاقائی اخبارات میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی بنیاد پر مرتب کی ہے جسے جمعرات کے روز ایک ورچوئل تقریب میں متعارف کروایا گیا

رپورٹ کے مطابق سال 2019 کے مقابلے میں 2020 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں 4 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔رپورٹ ہونے والے کیسز میں 985 بدفعلی، 787 ریپ، 89 پورنوگرافی جبکہ 80 بچوں کے جنسی استحصال اور جنسی استحصال کے بعد قتل کے تھے۔ان کے علاوہ بچوں کے اغوا کے 834، لاپتا ہونے کے 345 اور بچپن کی شادیوں کے 119 کیسز رپورٹ ہوئے، پاکستان میں روزانہ 8 بچوں کو کسی نہ کسی طرح زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

سندھ میں گزشتہ 5 سالوں میں 358 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، رپورٹرپورٹ کے مطابق زیادتی کے شکار زیادہ تر بچوں کا تعلق 6-15 سال کی عمر سے ہے مزید برآں چند ماہ سے لے کر 5 سال تک کی عمر کے بچوں کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 80 فیصد کیسز میں زیادتی کرنے والے شخص کی بچوں سے شناسائی تھی۔

ان میں ایک ہزار 780 کیسز میں زیادتی کرنے والا بچوں کا جان پہچان کا شخص، 109 کیسز میں خدمات فراہم کرنے والا مثلاً استاد، دکاندار ڈرائیور وغیرہ شامل تھے۔مجموعی طور پر 91 کیسز میں خاندان کے اراکین اور رشتہ دار، 92 کیسز میں پڑوسی ملوث تھے جبکہ صرف 468 کیسز میں بچوں کو اجنبیوں نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں