سری لنکا میں مہنگائی، خوراک و ایندھن کی قلت عوام کو سڑکوں پہ لے آئی

سری لنکا میں اس وقت اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جس کے خلاف وہ سڑکوں پہ نکل آئے ہیں۔

سری لنکا آزادی کے بعد پہلی بار بدترین قسم کے معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور اُسے خوراک اور ایندھن کی قلت کا سامنا ہے۔ صدر گوتابایا راج پاکسے نے عوام سے ایندھن اور بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری برتنے کی اپیل کی ہے۔

اپوزیشن پارٹی نے منگل کے روز صدارتی دفتر کے قریب ایک بڑا مظاہرہ کیا تھا جس میں خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر ان سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔

افراطِ زر کی شرح میں اضافے سے سری لنکا کے تقریباً سوا 2 کروڑ عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ عوام بدترین معاشی بحران کے لیے راج پاکسے حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

سری لنکا کے صدر گوتابایا راج پاکسے نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک بیل آؤٹ پیکج کا مطالبہ کریں گے۔ سری لنکا کے حکام آئی ایم ایف اور بعض ممالک سے قرض کی ادائیگیوں کو مؤخر کرنے کے لیے بھی بات چیت کر رہے ہیں۔

سری لنکا کورونا وبا کے بعد سے ہی معاشی بحران کا شکار ہے جبکہ یوکرین جنگ کے باعث ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے حالیہ ہفتوں میں صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔

ملک کی سیاسی جماعتوں اور سول گروپ نے اس معاشی بحران کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی ہے اور اس کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع کیے ہیں۔

سری لنکا کو اپنی درآمدات کے لیے ادائیگی میں انتہائی مشکل کا سامنا ہے۔ ملک ریکارڈ توڑ مہنگائی کے ساتھ ساتھ خوراک اور ایندھن کی قلت سے لڑ رہا ہے۔
کورونا وائرس کی وبا نے سری لنکا کے سیاحتی شعبے کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور بیرون ملک مقیم سری لنکن باشندوں کی طرف سے بھی ترسیلاتِ زر میں کافی کمی آئی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر راج پاکسے کی اقربا پروری اور بد انتظامی نے ملک کو معاشی بحران سے دوچار کر دیا ہے کیونکہ اُنہوں نے اپنے بڑے بھائی مہندا کو وزیراعظم اور چھوٹے بھائی باسل کو وزیر خزانہ کا عہدہ دے رکھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں