چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئین کو ماننے والے جب تک ہیں، تنقید سے فرق نہیں پڑتا، عدالت کے دروازے ناقدین کیلئے بھی کھلے ہیں، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ قربانیاں دیں اور اداروں کے ساتھ کھڑی رہی، قربانیاں دینے والوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت پیپلزپارٹی رہنمارضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لازمی نہیں کہ پارٹی سے وفا نہ کرنے والا بے ایمان ہو، کاغذات نامزدگی میں دیا گیا حلف پارٹی سے وابستگی کا ہوتا ہے، اصل حلف وہ ہے جو بطور رکن قومی اسمبلی اٹھایا جاتا ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے ارکان کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہ دینے کا خوف دلاتا ہے، پاکستان میں چند دن پہلے وزیراعظم آئین کی سنگین خلاف ورزی کے لیے تیار تھا، لیکن استعفیٰ نہیں دیا، پارٹی سے انحراف پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہوتا، آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف رکن ڈی سیٹ ہوتا ہے، نااہل نہیں، انحراف کی سزا رکنیت کا خاتمہ ہے مزید کچھ نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے رضا ربانی سے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دیکر آپ رو پڑے تھے، آپ نے تقریر میں کہا تھا کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہے، اگر مستعفی ہوجاتے تو کیا خیانت ہوتی؟ آپ نے کسی خوف کا اظہار نہیں کیا تھا۔ رضا ربانی نے کہا کہ استعفیٰ دینے کے بعد حالات کا سامنا نہیں کرسکتا تھا، استعفیٰ دینے کے لیے اخلاقی جرات نہیں تھی، استعفیٰ دینے کا مطلب سیاسی کیریئر کا خاتمہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تاریخ بتاتی ہے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ قربانیاں دیں اور اداروں کے ساتھ کھڑی رہی، قربانیاں دینے والوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔