اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آج ایک نئی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی گئی ہے جس کے تحت اب ویٹو پاور استعمال کرنے والے ملک کو وضاحت بھی پیش کرنا ہوگی۔ اس قرارداد کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے ویٹو پاور استعمال کرنے پر اُنہیں جوابدہ بنانے کی جانب پہلا قدم سمجھا جا رہا ہے۔
سلامتی کونسل کے مستقل ارکان امریکا اور برطانیہ نے یہ قرارداد پیش کی تھی جس کی حمایت میں متفقہ طور جنرل اسمبلی کے تمام 193 ارکان نے ووٹ کیا اور تالیوں کی گونج میں اسے منظور کر لیا گیا۔
کسی بھی مسئلے پر ویٹو پاور کے استعمال کے 10 روز کے اندر جنرل اسمبلی میں بحث ضروری ہوگی کہ آخر کسی قرارداد کو روکنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور ویٹو پاور کا استعمال کرنے والے ملک کو اس کی وضاحت کرنا ہوگی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اِس طریقِ کار پر ایک طویل عرصے سے تنقید کی جاتی رہی ہے کہ اس کے پانچ مستقل ارکان میں سے کوئی رکن اگر کسی قرارداد کے حق میں نہ ہو یا ناراض ہو تو اتفاق رائے کے لیے یا تو بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے یا پھر وہ قرارداد ناکام ہو جاتی ہے
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد اس دیرینہ مسئلے پر زیادہ توجہ مرکوز ہوئی۔ روس نے یوکرین میں اپنے فوجی آپریشن کے حوالے سے قراردادوں کو ویٹو کر دیا تھا۔
1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور تب سے سلامتی کونسل کی 200 سے زیادہ قراردادوں کو ویٹو کیا جا چکا ہے۔
ویٹو کی گئی قراردادوں میں کوریا کی جنگ، اسرائیل فلسطین تنازع، موسمیاتی تبدیلی، ہتھیاروں سے متعلق رپورٹس اور بحر ہند کے ملک کوموروس کے ایک حصے کی حکومت جیسے کئی معاملات شامل ہیں۔
سوویت یونین اور بعد ازاں روسی فیڈریشن کی حیثیت سے روس نے ویٹو پاور کا سب سے زیادہ استعمال کیا ہے جبکہ امریکا دوسرے نمبر پر ہے۔