پاک فوج کی انتظامی خد.مات

تحریر:کنول زہرا
پاک فوج نے پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعے اپنے آپ کو دنیا کی ساتویں بڑی فوج کی فہرست میں شامل کیا ہے
وسائل کی کمی اور پے در پے سیکورٹی چیلنجز کے باوجود ہر محاذ پر افواج پاکستان, مادر وطن کا دفاع کر رہی ہے,  وطن کے سپوت قومی سلامتی کی خاطر ملک و قوم کی بقا اور ترقی کی خاطر جان کی بازی تک لگانے میں گریز نہیں کرتے ہیں,  پاک فوج نے خطے کی سلامتی، اور استحکام سمیت دنیا میں قیام امن کے لئے بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
یہ ہی نہیں بلکہ افواج پاکستان ملک کے معاشی حالت کو مستحکم کرنے کے لئے بھی کمربستہ ہے, پاک فوج قدرتی افات, وبائی امراض, انفراسٹرکچر, بارش کے پانی کی نکاسی, سیلاب, آشزدگی کو بجھانے کے امور کے ساتھ عوام کو بہتر سہولت فراہم کرنے کی خاطر بھی مصروف عمل ہے
پاک مٹی کے بیٹے نہ صرف مغربی اور مشرقی سرحدوں پر ڈٹے ہوئے ہائبرڈ جنگی چیلنجز کا بھی سامنا کر رہے ہیں,
ملک کی غیر مستحکم معاشی حالات کے پیش نظر پاک فوج نے دفاعی بجٹ میں اضافے کی کبھی خواہش مند نہیں رہی, تیزی سے بڑھتی مہنگاہی کی وجہ سے پاکستان کے دفاعی بجٹ
کا جی ڈی پی 1970, میں  6.50, جبکہ  2021  میں یہ ہدف  2.54  فیصڈ تک آگیا ہے
2021-22 کے کل 8,487 ارب روپے کے بجٹ میں دفاہی وسائل کے لئے  1,370 بلین روپے مختص کیے گئے تھے, یعنی بجٹ کاسولہ فیصد حصہ دفاع کے لئے استعمال ہوا.
اس 16 فیصد میں سے پاک فوج کو 594 ارب روپے ملتے ہیں۔ یعنی پاکستانی فوج کو کل بجٹ کے وسائل کا 7 فیصد حصہ ملتا ہے۔ پاک فوج نے سال
2019
میں ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے دفاعی بجٹ سے 100 ارب روپے کم کروائے تھے.
دنیا کے سب سے زیادہ فوجی اخراجات والے 40 ممالک کی فہرست میں ایس, ائی, پی, آر, ائی کی حالیہ رپورٹ پاکستان کو  23 ویں نمبر پر رکھتی ہے، یہ ہندسہ 2020 کے مقابلے میں ایک پوزیشن نیچے ہے، اس سے پاک فوج کی کفایت شعاری ظاہر ہوتی ہے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے  ملٹری ایکسپینڈیچر ڈیٹا بیس اور ملٹری بیلنس کے مطابق، پاکستان (2.54 جی ڈی پی) کے مقابلے دفاع پر زیادہ خرچ کرنے والے ممالک میں عمان (جی ڈی پی کا 12 فیصد) لبنان (10.5 فیصد)، سعودی عرب شامل ہیں۔ عرب (8 فیصد)، کویت (7.1 فیصد)، الجزائر (6.7 فیصد)، عراق (5.8 فیصد)، متحدہ عرب امارات (5.6 فیصد)، آذربائیجان (4 فیصد)، ترکی (2.77 فیصد)، مراکش (5.3 فیصد)، اسرائیل (5.3 فیصد) 5.2 فیصد، اردن (4.9 فیصد)، آرمینیا (4.8 فیصد)، مالی (4.5 فیصد)، قطر 4.4 فیصد، روس 3.9 فیصد، امریکی 3.4 فیصد اور ہندوستان (3.1 فیصد) ہے
فنڈز کی اصل تقسیم پر غور کرتے ہوئے یہ فرق اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے 8.8 بلین امریکی ڈالر کے دفاعی بجٹ کے مقابلے میں بھارت 76 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے، ترکی 22.1 بلین ڈالر، جنوبی کوریا 46.32 بلین ڈالر، جاپان 47.2 بلین ڈالر، سعودی عرب 46.32 بلین ڈالر، ایران اپنے دفاع پر 15.34 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے۔ جبکہ یورپ میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی بالترتیب 68.4 بلین ڈالر، 56.6 بلین ڈالر اور 56 بلین ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ چین 230 بلین امریکی ڈالر خرچ کرتا ہے اور امریکہ دفاعی بجٹ پر 801 بلین ڈالر خرچ کر کے اعدادوشمار میں سب سے آگے ہے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے  ملٹری ایکسپینڈیچر ڈیٹا بیس اور ملٹری بیلنس کے مطابق ہندوستان کے 76.6 بلین ڈالر کے فوجی اخراجات دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے, بھارتی دفاعی بجٹ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے 9 گنا زیادہ ہے۔
پاکستان کے پاس دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے، اس کے اخراجات سب سے کم ہیں۔ امریکہ 392000 ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے، سعودی عرب 371000 ڈالر خرچ کرتا ہے، بھارت 42000 ڈالر خرچ کرتا ہے، ایران 23000 ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ پاکستان ہر سال 12500 ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے۔ دنیا کی عصری افواج کے مقابلے میں کم دفاعی بجٹ ہونے کے باوجود پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے پیشہ ورانہ معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دیا، اس کا شمار دنیا کی 9ویں طاقتور ترین فوج میں ہوتا ہے۔
پاکستان آرمی نے بھی مالی سال 2020/21 میں  28 بلین کا حصہ سرکاری خزانے میں ٹیکس کے طور پر جمع کرایا ہے, ہمیشہ تنقید کی زد میں رہنے والے فوجی فاؤنڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کاروباری منصوبے نہیں ہیں بلکہ  فلاحی تنظیمیں ہیں جنہیں چیریٹیبل انڈوومنٹ ایکٹ 1890 کے تحت شامل کیا گیا ہے۔ ان کی آمدنی کا 73 فیصد سے زائد حصہ شہدا، زخمیوں, معذوروں اور ریٹائرڈوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔  فوجی فاؤنڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے 17 فیصد ملازمین شہدا کی فیملیز اور ریٹائرڈ فوجی اہلکار ہیں۔ یہ تنظیمیں 83 فیصد سویلین  کو بھی ملازمتیں  فراہم کرتی ہیں,
فوجی فاؤنڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ نے مالی سال 2020/21 میں ٹیکسوں، ڈیوٹیوں اور لیویز کی مد میں قومی خزانے کو 150 بلین روپے ادا کیے گزشتہ پانچ سالوں میں فوجی فاؤنڈیشن
نے حکومت کو ٹیکس اور لیویز کے طور پر 1 ٹریلین روپے ادا کیے ہیں۔. فوجی فاؤنڈیشن میں ملازمین کا مجموعی تناسب 3989 سابق سروسز اہلکار اور 22,652 سویلین ہے,  یعنی79 فیصد سویلین فوجی فاونڈیشن میں ملازمت کرتے ہیں, خصوصی کمیونیکیشن آرگنائزیشن نے کمیونیکیشن سیکٹر میں 4612 ملازمتیں فراہم کی ہیں۔ ایس سی او نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں 6789 کلومیٹر طویل آپٹیکل فائبر کیبل بچھائی ہے، یہ دنیا کے ناہموار خطوں میں سے ایک ہے, جہاں جدید ترین ڈیجیٹل مواصلاتی خدمات کو فعال کیا گیا ہے۔
نیشنل لاجسٹک سیل نے افغان جنگ کے دوران  ریزرو ٹرانسپورٹیشن کے انتظام کیے,یہ 6500 سے زیادہ شہریوں کو ملازمت دیتا ہے جس سے 78 فیصد سویلین ملازمین کا روزگار وابستہ ہے۔ این ایل سی نے گزشتہ 5 سالوں میں 6 ارب روپے ٹیکس ادا کیا ہے۔

کارکی کراڈینیز الیکٹرک یوٹرم
تنازعات کا تصفیہ ریاست پاکستان کی معاشی بہبود کے لیے پاک فوج کی کوششوں کی بہترین مثال ہے۔
14 اگست 2020 کو صدر پاکستان نے آئی ایس ائی کے تین افسران کو ستارہ امتیاز کے سول ایوارڈ سے نوازا جنہوں نے کارکے تنازع کے کامیاب حل میں اہم کردار ادا کیا تھا
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس
ایف اے ٹی ایف
سہولت کاروں کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی امداد کے نیٹ ورک کو توڑنے اور پکڑنے میں بھی پاک فوج کا کردار مثالی رہا ہے,  ڈیزاسٹر ریلیف اور مینجمنٹ کے تحت سیلاب، زلزلہ، خشک سالی، وبائی امراض وغیرہ جیسی قدرتی آفات میں پاک فوج نمایاں رہی ہے۔
پاک فوج 2014 سے انسداد پولیو کی کوششوں میں تعاون کر رہی ہے۔  مہم کے دوران تقریباً 16000  آرمی/ایف سی /رینجرز کے دستے تعینات ہوتے ہیں۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مسلسل کوششوں کی بدولت، پاکستان دسمبر 2023 تک پولیو وائرس کے خاتمے کا متمنی ہے۔
مارچ 2020 میں پاکستان عالمی وبا کارونا کا شکار ہوا، اسی مہینے میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں آیا, جس میں سول اور ملٹری اداروں نے فعال کردار ادا کیا, پاک فوج نے اس وبا کا مقابلہ جنگی بنیادوں پر کیا,  مقامی آرمی کور نے صوبائی انتظامیہ کے ساتھ COVID-19 کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کے نافذ کو یقنی بنایا, آرمی چیف ہدایات کے تحت، راولپنڈی میں ایک مرکزی سہولت کے ساتھ ملک بھر کے بڑے فوجی ہسپتالوں میں COVID ٹیسٹنگ لیبز قائم کی گئیں۔ طبی سہولیات اور دیگر انتظامات کی جانچ پڑتال کے لیے ملک بھر میں فوج کے ہزاروں دستے تعینات کیے گئے اور جہاں ضرورت پڑی سول انتظامیہ میں افرادی قوت کی کمی کو پورا کیا گیا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنل سینٹر (این سی او سی ) کے ذریعے کوویڈ 19 وبائی امراض کے خلاف قومی ردعمل میں فوج کا کردار قابل ستائش رہا, اس کے علاوہ فصلوں پر ٹڈی دل کے حملے کو بھی پاکستان آرمی نے بخوبی طریقے سے قابو کیا, اس آپریشن میں
تقریباً 10,000 فوجی دستوں کو ٹریکٹر اور کار میں نصب مشینوں کے ذریعے زمین پر چھڑکاؤ کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔
قدرتی آفات کے تباہ کن نتائج سے نمٹنے میں لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا کردار قابل تعریف ہے۔
سیلاب.

پاک فوج نے عوام کو کسی سخت صورتحال میں تنہا نہیں چھوڑا
سال 2017 میں جب سیلاب آیا تو کراچی میں 188 فوجیوں، 21  ڈی واٹرنگ پمپ اور 30  کشتیاں اربن فلڈ ریلیف اور ریسکیو آپریشنز میں استعمال کی گئیں۔   سال 2018 میں، لاہور میں شہری سیلاب سے بچاؤ کی کارروائیوں کے لیے 200 فوجی، 26 ڈی واٹرنگ پمپ اور 19 کشتیاں استعمال کی گئیں۔   اسی طرح، 2020 میں، کراچی، حیدرآباد، اندرون سندھ، پنجاب اور کے پی میں 10,000 افراد کو سیلاب سے بچانے کے لیے 4,000 سے زائد افراد، 100  ڈی واٹرنگ پمپ، 105 کشتیاں  استعمال ہوئیں جبکہ ہیلی کاپٹرذ کی سہولت بھی موجود تھی ۔ اس مشکل سے نمٹنے کے لئے 50 پناہ گاہیں اور 75 سے زیادہ میڈیکل کیمپ بھی قائم کیے گئے۔
پائن فاریسٹ فائر، شیرگلی، ضلع شیرانی
.   ضلع شیرانی میں دیودار کے جنگل میں لگنے والی آگ کو بجھانے کے لیے ایک ایف سی ونگ اور 2 آرمی ہیلی کاپٹر  نے مقامی انتظامیہ اور لیویز کے ساتھ مل کر کام کیا.
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی
کی جانب سے ایف سی بلوچستان کے ذریعے کمبل، خیمے، چٹائیاں اور آگ بجھانے اور کھانے پینے کا سامان فراہم کیا گیا۔ ڈیرہ بگٹی, بلوچستان میں ہیضے کی وبا نے لوگوں کو بری طرح متاثر کیا, پاک فوج نے قومی خدمت کے تحت روزانہ کی بنیاد پر 54 دیہاتوں کو صاف پانی (تقریباً 350000 لیٹر) فراہم کیا گیا.
ہیضہ، ڈائریا اور ملیریا کے مریضوں کی جانچ اور علاج کے لیے علاقے میں شفٹ ہسپتال بنائے, جہاں تقریباً 2000 افراد روزانہ ٹیسٹ اور علاج ہوتا تھا,
ملک بھر میں جاری گرمی کی لہر سے نمٹنے کے لیے پاک فوج نےآرمی چیف کے حکم پر سندھ میں دور دراز صحرائی علاقوں میں تقریبا  21 جبکہ پنجاب 37 میں ہیٹ اسٹروک کے  مراکز  قائم کیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں