پیغام محبت

تحریر: کنول زہرا
نفرت انگیز تقاریر معاشرے کی تہذیبی اقدار کو براہ راست نقصان پہنچاتی ہیں, اس قسم کی تقاریر سے انسانی وقار، مساوات اور امن کو کو شدید دھچکا لگتا ہے, آج کل ہر شخص کے ہاتھ میں سیل فون ہے جس پر دن رات نفرت انگیزی کا مواد اپلوڈ ہوتا ہے, جس سے معاشرے میں تقسیم در تقسیم کی سوچ پختہ ہو رہی ہے, اس وجہ سے انتشار کے امکانات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے, لہذا اس سلسلے میں حکومت کو جامع قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ نفرت انگیز تقاریر اور مواد کو ایک سے دوسرے، تک منتقل کرنے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارم سےجدید کے ذریعے سے ہی نمٹا جاسکتا ہے, تاکہ پرامن، جامع اور انصاف پسند معاشرے کو فروغ دیا جا سکے.
ہندوستان کے حکمران جماعت کے پیروکار اپنی تقاریر اور سوشل میڈیا اکاونٹس کے ذریعے اقلیتوں, خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی پھیلا رہے ہیں
اس قسم کی ہیجانی تقاریر اقوام متحدہ کے چارٹر کی مکمل خلاف ورزی کے ضمرے میں آتی ہیں, جس کا انعقاد 2019 میں جون کی اٹھارہ کو ہوا, 18 جون اقوام متحدہ کی جانب سے انسداد نفرت انگیز تقاریر کا بین الاقوامی دن ہے.جولائی 2021 میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دنیا بھر میں “نفرت انگیز تقاریر کے تیزی سے پھیلاؤ اور پھیلاؤ” پر عالمی خدشات کو اجاگر کیا اور “منافرت پر مبنی تقریر کے انسداد میں بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے اور رواداری کو فروغ دینے” سے متعلق قرارداد منظور کی۔اقوام متحدہ کے انسداد نفرت انگیز تقاریر کے چارٹر کے تحت پاکستان نے 2009 میں شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی کنونٹ (آئی سی سی پی آر)  کی توثیق کی۔ نفرت انگیز تقاریر سے متعلق قوانین پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن (2) 505  میں درج ہے کہ جو دشمنی, نفرت, مذہبی منافرت, نسلی اور لسانی امتیاز کے جذبات کو فروغ دینے کا باعث بنے اس کے خلاف فوری کاروائی کی جائے, تاکہ وطن عزیز فلاحی ریاست میں تبدیل ہوکر بانی پاکستان کے اصولوں پر گامزن ہوسکے, اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کو چاہیں کہ پاکستان کی خاطر اپنے ملک کے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو قومی خودمختاری اور سلامتی کی خاطر اتحاد، اعتماد اور رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاہم اس کے برعکس کچھ عناصر اپنے قائدین کی بے جا پیروی کی خاطر, نفرت انگیز تقاریر اور مواد کے ذرئعے سے معاشرے میں تقسیم در تقسیم کی سوچ بیدار کر رہے ہیں، وہ تمام اخلاقیات کو فراموش کر کے اسلامی تعلیمات کو بھی بالائے طاق رکھ رہے ہیں, خیال رہے ہمیں اپنی اگلی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے بے بنیاد پروپیگنڈے، جعلی خبروں اور غلط معلومات کو یکسر مسترد کرنا ہوگا۔ہمیں ریاست کے استحکام اور ترقی کی خاطرجمہوریت کو مضبوط کرکے آئین کی پاسداری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انصاف اور رواداری کے اصولوں پر عمل کیا جائے۔خوشحالی کے لیے تنقید برائے تنقید، نفرت اور عدم برداشت کی حوصلہ شکنی کرکے ذاتی مفادات اور انا کو ایک طرف رکھنا ہو گا۔ • نفرت، بغض، رنجش اور تعصب کو ہمیشہ کے لیے دفن کرکے دلوں کو محبت، امن، بھائی چارے، رواداری اور باہمی احترام سے آباد کرنا ہوگا تاکہ دنیا ہمیں مثبت مثال کے طور پر پیش کرئے اسلام نے ہر سطح پر اعتدال کا درس دیا ہے اور ہر ایک کے لیے امن اور خیر سگالی کی وکالت کی ہے، عوام اور حکمرانوں کو اسلام کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔آئیں یہ عہد کریں کہ پاکستان کی خاطر ہر قسم کی نفرت انگیزی کا گلہ گھونٹ کر امن و محبت کا پرچار کریں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں