جاپانی سفارتکار پاکستان کی محبت میں گرفتار

جاپانی سفارتکار پاکستان کی محبت میں گرفتار

پاکستان میں اگرکسی سفارتکار کوامریکا بالخصوص واشنگٹن ڈی سی میں تعینات کیا جائے تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے، وہ کسی ترقی پزیر ملک میں تعینات ہو اور وہاں سے امریکا بھیجا جا رہا ہو تو کالر کھڑے نہ ہوں،یہ تعجب خیز ہی ہوگا لیکن پاکستان میں تعینات جاپانی سفارتکار ناکامورا کیرارا کی کراچی سے واشنگٹن روانگی کا منظر کچھ ایسا تھا کہ تقریب کے شرکا یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ جاپانی سفارتکار کو یہاں ایسا کیا نظرآیا جو وہ خود اب تک نہیں دیکھ سکے ہیں۔

کراچی میں جاپان کے قونصل خانے میں تقریب تو محفل موسیقی کی تھی مگر یہ ناکامورا کیرارا کو الوداع کہنے کا بہانہ بن گئی۔ نئےقونصل جنرل توشیو اواداگیری نے مختصر خطاب میں بتایا کہ وہ تجارت اور ثقافت کی لڑیوں سے دونوں ممالک کو مزید قریب لانا چاہتے ہیں۔ثقافت کی بات کہتے ہی اواداگیری نے مائیک اپنے ڈپٹی کاتسونوری اشیدا کے سپرد کردیا جو اردو اور پنجابی روانی سے بولتے ہیں،جملوں میں محاورے جڑتے ہیں اور تیز ہری مرچوں والے چٹ پٹے پاکستانی کھانے پسند کرتے ہیں۔

اس محفل میں کاتسونوری اشیدا کی بورڈ پر تھے، برطانیہ کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن مارٹن ڈاوسن ڈرم سنبھالے ۔جاپان کی معروف ترین کارکمپنی میں مینوفیکچرنگ شعبے کی سرکردہ شخصیت کوبوتو ماکوتو گٹاربجاکر محفل کو گرمارہے تھےاورگلوکارہ ناکامورا کا کورس میں ساتھ اوکاموتو نے دیا۔

محفل کےآغاز پر ڈپٹی قونصل جنرل کاتسونوری اشیدا نے پرفارمنس پیش کرنےوالوں کا تعارف کرایا تو شرکا اس وقت حیران رہ گئے جب انہوں نے 9 اور 12 برس کی دو جاپانی بچیوں کو ایک ایسا ساز بجانے کی دعوت دی جو 8ویں صدی میں چین سے جاپان میں متعارف کرایا گیا تھا۔

پاولووانیا لکڑی سے بنے اس کوٹو ساز میں ریشم کے 13 متوازی تار ہوتے ہیں جنہیں بریج کی مدد سے ٹیون کیا جاتا ہے اور انگلیوں پر پلیکٹرا پہن کر سرچھیڑے جاتے ہیں۔ یہ ساز کبھی جاپان کےشاہی درباروں تک محدود تھا مگر سولہویں صدی میں عوام کو بھی اس کی مدھر دھنوں سے لطف اٹھانے کی اجازت ملی تھی۔

جاپانی لباس کیمونو میں ملبوس دونوں بچیوں نے قدیم ساز سےسرچھیڑے تو ہر شخص کی نگاہیں ان ننھی انگلیوں پرجم گئیں جو کمال مہارت سے متوازی تاروں پر محورقص تھیں۔۔مقبول ترین گیت ساکورا ساکورہ، آل ویز ودھ می اور اے ہول نیو ورلڈ پیش کیے گئے توکوئی بھی شخص ایسا نہ تھا جس نے دل کھول کر داد نہ دی ہو۔

مختصر وقفے کے بعد جاپانی اور پاکستانی پاپ میوزک بینڈ ‘ایس اوپی’ کا تعارف کرایا گیا جس کی لیڈ سنگر کراچی میں جاپان کی پولیٹیکل اتاشی ناکامورا کیرارا تھیں۔ انہوں نے اس سے پہلے بھی تین بڑی تقاریب میں اپنی آواز کا جادو جگا کر لوگوں پر سحرطاری کردیا تھا۔

کاتسونوری اشیدا یوں تو چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہوئے تھے مگراب چہرے پراچانک سنجیدگی اُمڈ آئی ،بولے ناکامورا کی چند گھنٹے بعد واشنگٹن روانگی ہے اور وہ کچھ جذباتی کیفیت میں ہیں۔ سامعین چونکے مگر اس بات پر کھلکھلا کر ہنستی گلوکارہ کو دیکھا تو بات پر زیادہ دھیان دینے کی بجائے یہی سمجھے کہ شاید اشیدا نے یہ بات ازراہ مذاق کہی ہے۔

ناکامورا کیرارا نے پہلا گیت شروع ہی کیا تھا کہ آواز بھراگئی، چہرے پر اداسی نے ڈیرے ڈال لیے اور وہ کہیں کھوسی گئیں، مدھرآواز نے دھنوں کا ساتھ چھوڑدیا، یوں لگا کہ جُدائی کا جو گیت ناکامورا گارہی تھیں وہ خود انکی آپ بیتی بن گیا تھا، ایک ایسے محبوب سے جدائی کی داستان بن گیا تھا جو خود تو بچھڑنا نہ چاہتا تھا مگر قسمت نے ناکامورا کو اس سے سات سمندر پار بھیجنے کی ٹھان لی تھی۔اب شرکا کو اشیدا کی بات کے معنی سمجھ آئے۔

سفارتکارنے پہلا گیت بمشکل تمام کیا اورروہانسی لہجے میں بولیں کہ انکی واشنگٹن روانگی میں صرف چھ گھنٹے رہ گئے ہیں اور وہ اس پل کو کھونا نہیں چاہتیں، یادوں کی برات ہے جو ان کےذہن میں امڈ رہی ہے اورجذبات کی رو انہیں اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔آداب محفل نبھانےتھے اس لیے ناکامورا نے خود پرقابوپانےکی کوشش کی ، دو گیت اور پیش کیے مگر ہر گزرتے لمحے انکا چہرہ بجھتا چلا گیا۔

ناکامورا ٹوکیو سے 3برس پہلے کراچی آئی تھیں،انکی ذمہ داریوں میں سیاسی اور اقتصادی امور تھے،انکا یہ عرصہ زیادہ تر کورونا وبا کی نذر ہوا جس میں تقاریب محدود پیمانے پر ہوئیں اور مختلف حلقوں،شخصیات اور لوگوں سے بھی تعلق اس قدر نہیں ہوا جتنا کورونا وبا سے پہلے ہوا کرتا تھا مگر یہ تین برس انکے ذہن پر اپنا نقش چھوڑنے کے لیے کافی تھے۔

ترکی میں تعلیم حاصل کرنیوالی ناکامورا آج واشنگٹن پہنچ کر پیر سے ذمہ داریاں سنبھالیں گی مگر انکے چہرے پر ایک لمحے کو بھی اس پرخوشی کےآثار نہیں تھے۔
کچھ یہی کیفیت چند ماہ پہلے توشی کازو ایسومورا کی تھی جو کراچی میں جاپان کے قونصل جنرل کی حیثیت سے تعینات تھے،وطن روانگی کے موقع پر فیئرویل میں انہوں نے انتہائی مختصر خطاب کیا تھا اور نم آنکھوں کےساتھ یہ کہہ کر ڈائس چھوڑ دیا تھا کہ ‘بہت سے یادیں ہیں جو وہ اپنے ساتھ لے جارہے ہیں’

ایسومورا ہوں،اشیدا ہوں یا کیرارا ان تینوں کی پاکستان سے محبت قابل رشک ہے اور ایک یاد دہانی بھی کہ وہ چیزیں ہم کیوں نہیں دیکھ پارہےجوایسومورا،اشیدا اور کیرارا کی نظروں سےاوجھل نہیں ہوتیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں