پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر حملے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف پر لگائے گئے الزامات کے ثبوت فراہم کرنے کے لیے تسنیم حیدر کو طلب کرلیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر گردش کرتی تسنیم حیدر کی پریس کانفرنس کے ویڈیو کلپس کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے متعدد رہنماؤں کی جانب سے شیئر کیا گیا۔
پریس کانفرنس میں تسنیم حیدرنے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ترجمان ہیں، انہوں نے الزام عائد کیا کہ (ن) لیگ کے قائد نواز شریف سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل اور سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی سازش کا حصہ تھے۔
وزیرآباد حملے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تسنیم حیدر سے نواز شریف پر عائد الزامات کے ثبوت فراہم کرنے کا کہا ہے۔
ان معلومات سے واقف سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے تسنیم حید شاہ سے ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ کیا ہے۔
اس سے قبل تسنیم حید شاہ نے کہا تھا کہ وہ پاکستانی حکام کو بیان دینے کے لیے تیار ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کے سربراہ کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) لاہور غلام محمود ڈوگر نے 20 نومبر کی رات کو تسنیم حید شاہ سے رابطہ کیا تھا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ یہ ایک فالو اپ کال تھی، اس سے قبل وزیراعلیٰ کے مشیر اور پی ٹی آئی رہنما عمر سرفراز چیمہ نے ٹیلی فون کال کے ذریعے تسنیم شاہ کو غلام محمود ڈوگر کا تعارف کروایا تھا۔
تسنیم شاہ کی جانب سے نواز شریف پر لگائے گئے الزامات پر جے آئی ٹی نے کہا کہ وہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت پاکستان واپس آکرجے آئی ٹی ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروائیں۔
تاہم تسنیم حیدر نے پاکستان واپس آنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے ضلع گجرات میں فوجداری مقدمات میں انہیں اشتہاری مجرم قرار دیا گیا ہے۔
بعد ازاں سی سی پی او غلام محمود ڈوگر نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ پاکستان نہیں آسکتے تو لندن سے ویڈیو کال کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروائیں جس کے بعد تسنیم شاہ اور جے آئی ٹی ٹیم نے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے اگلی فون کال کے ذریعے اس معاملے پر بات چیت کا فیصلہ کیا۔
اسی دوران تسنیم حیدر کی پریس کانفرنس میں انکشافات کے بعد پاکستان مسلم (ن) کی حکومت مشکل میں آگئی ہے جو پہلے ہی پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے لانگ مارچ اور تنقید کی زد میں ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار نے بتایا کہ یہ الزامات اس وقت سامنے آئے ہیں جب عمران خان نے اپنے اوپر قاتلانہ حملے کا الزام وزیراعظم شہبازشریف اور وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ سمیت ایک اعلیٰ فوجی افسر پر عائد کرنے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت حکومت پر تنقید کررہی ہے۔
قبل ازیں مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ تسنیم حیدر کے پاس ثبوت ہیں تو جے آئی ٹی کے قانونی فورم پر پیش کریں۔
انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تنسیم شاہ کے درمیان کسی بھی قسم کے تعلق کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تسنیم حیدر لندن میں پارٹی کا ترجمان نہیں ہے، کوئی شخص زبردستی پارٹی ترجمان بننے کی کوشش نہ کرے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ جعلسازی، جھوٹ اور فیک نیوز سے ارشد شریف کے اصل قاتلوں سے توجہ ہٹائی نہیں جاسکتی۔
اس کے علاوہ پاکستان مسلم (ن) کے رہنماؤں نے پی ٹی آئی پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ توشہ خانہ سے بچنے کے لیے غیر ضروری مسائل پیدا کیے جارہے ہیں۔
قبل ازیں گزشتہ ہفتے دبئی میں مقیم کاروباری شخصیت عمر فاروق ظہور نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے تحفے میں دی گئی ایک مہنگی گھڑی 20 لاکھ ڈالر میں انہیں فروخت کی جس کی مالیت 2019 میں تقریباً 28 کروڑ روپے تھی۔
عمر فاروق نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق وزیر احتساب شہزاد اکبر نے گھڑی فروخت کرنے کے حوالے سے مارچ 2019 میں رابطہ کیا تھا۔
عمر فاروق ظہور نے نجی چینل ’جیو نیوز‘ کے اینکر پرسن شاہزیب خانزادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’مارچ 2019 میں سابق وزیر احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ ان کے پاس گھڑیوں کا ایک سیٹ ہے اور اگر میں دلچسپی رکھتا ہوں تو میں فرح خان (عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قریبی دوست) سے رابطہ کروں کیونکہ انہیں مدد کی ضرورت ہے اور ان اثاثوں کے لیے کوئی خریدار نہیں مل رہا ہے‘۔