قومی اداروں کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم خان سواتی کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا گیا۔
اسلام آباد میں سینئر سول جج محمد شبیر کی عدالت میں اعظم سواتی کے خلاف متنازع ٹوئٹس کے مقدمے کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) کی جانب سے ملزم کے مزید 6 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ ملزم سے ابھی موبائل اور ٹوئٹ اکاؤنٹ سے متعلق مزید تفتیش کرنی ہے، جس کے لیے مزید ریمانڈ درکار ہے۔
سماعت کے دوران ملزم کے وکیل بابر اعوان نے عدالت کے روبرو استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کو جان کا خطرہ ہے، اس لیے پیشی سے استثنیٰ کی اجازت دی جائے۔
سينيٹر اعظم سواتی کی جانب سے بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ سيکیورٹی خدشات پر ملزم کو پیش نہیں کیا ہے، جس پر عدالت نے پیشی سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے اعظم سواتی کا مزید 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
وکیل بابر اعوان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اعظم سواتی کی جان کو شدید خطرات ہیں اس لیے انہیں عدالت میں پیش نہ کیا جائے۔
تاہم جج محمد بشیر نے کہا کہ ملزم کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا جائے۔
عدالت نے پیشی سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے کیس کی سماعت 3 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
اعظم سواتی دوسری بار گرفتار
خیال رہے کہ 27 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی ہے۔
سابق وفاقی وزیر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 26 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ شیئر کی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ سینئر فوجی افسر کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے جبکہ 19 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار جرنیل ہیں جس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ۔‘
ایف آئی آر کے مطابق 24 نومبر کو ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’تبدیلی کا آغاز اداروں سے کرپٹ جرنیلوں کا گند صاف کرنے سے ہونا چاہیے تھا،‘ جس پر بھی اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ‘۔
ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے کہ 24 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک متنازع ٹوئٹ کیا گیا جس پر اعظم سواتی نے انتہائی جارحانہ انداز میں جواب دیا۔
ایف آئی آر کے مطابق سینیٹر کے خلاف ماضی میں بھی اسی طرح کی شکایات درج ہوئی ہیں، مزید لکھا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے ریاست کے ستونوں کے درمیان بدنیتی پیدا کرنے کی کوشش کر کے عام لوگوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو اکسانے کی کوشش کی۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔
بعد ازں تحریک انصاف نے ٹوئٹر پر پارٹی رہنماؤں کی تصاویر جاری کرتے ہوئے لکھا کہ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم، عمران اسمٰعیل اور دیگر قیادت سینیٹر اعظم خان سواتی کی جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیشی کے دوران ایف ایٹ کچہری پہنچ تھی۔