جوڈیشل مجسٹریٹ لاہور نے سائبر کرائم دفعات کے تحت درج مقدمے میں گرفتار صحافی اور ’بول نیوز‘ کے سینئر اینکر عمران ریاض خان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
عمران ریاض کو لاہور کی ضلع کچہری میں جوڈیشل مجسٹریٹ غلام مرتضیٰ ورک کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان کا جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی گئی، ملزم کی جانب سے میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایف آئی اے نے جسمانی ریمانڈ کی جو درخواست دی اس میں کوئی وجوہات بیان نہیں کی گئیں، عمران ریاض پر نفرت انگیز تقریر کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، درخواست میں کہا گیا کہ عمران ریاض کی تقریر ایف آئی اے کی علاقائی حدود میں آتی ہے۔
عمران ریاض کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ایف آئی اے کا علاقائی حدود کا لفظ قابل غور ہے، قانونی حدود کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا، جب کوئی جرم ثابت ہونا نہ پایا گیا ہو تو ملزم کو مقدمے سے ڈسچارج کیا جاتا ہے، اسی نوعیت کے مقدمے میں اسی عدالت نے ملزم کا مقدمہ خارج کیا تھا۔
میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ عمران ریاض خان کے خلاف درج مقدمہ خارج کیا جائے، ان کے خلاف اسی نوعیت کے 21 مقدمات پہلے ہی درج ہیں، یہ ایک ایک کرکے ہارتے رہیں گے، یہ بیان دینا کوئی جرم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ان کے ادارے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ کہنا بھی کوئی جرم نہیں ہے، عوام سے پوچھنا کہ آرمی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے کیا یہ کوئی جرم ہے؟ ایک ادارے کے سربراہ کا دعویٰ صدی کا سب سے بڑا سچ نہیں ہے۔
میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے کہا کہ جنرل صاحب کو مخاطب کرنا کوئی جرم نہیں ہے، اس عدالت میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو محب وطن نہ ہو، اس دوران کمرہ عدالت میں تالیاں بجنے پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ان تالیاں مارنے والے سب کو باہر نکالیں۔
دوران سماعت کمرہ عدالت میں مقتول صحافی ارشد شریف کا بھی تذکرہ ہوا، میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت گھٹیا، غلیظ الزامات لگا کر ڈھول پیٹ رہی ہے، یہ سورما لیڈروں کو شرم نہیں آتی یہ تقاریر کر کے کریڈٹ لیتے ہیں، اپنی آئینی حدود میں رہنے کا کہنا کسی بھی طور پر جرم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران ریاض خان نے کسی ادارے کو ٹارگٹ نہیں کیا، عدالتیں وفاقی حکومت کے سارے مقدمات کو اٹھا کر پھینک رہی ہیں، جن لوگوں نے ارشد شریف کو جان سے مارا ہے وہ عمران ریاض خان کو مارنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ سرکاری رپورٹس ہیں، کہیں یہی نہ ہو کہ سرکاری رپورٹس پڑھنا بھی جرم بن جائے۔
عمران ریاض کے وکیل نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے تو دعویٰ نہیں کیا ان کی کوئی توہین ہوگئی ہے، قمر جاوید باجوہ کا 161 کا بیان تو ریکارڈ پر موجود نہیں ہے، ایف آئی اے ادارے کی اپنی ساکھ ختم ہو چکی ہے، ایف آئی اے کون ہوتا ہے جو ایسے مقدمات درج کرے؟
ان کا کہنا تھا کہ ایمان مزاری کیس جس میں بغیرت کا لفظ استعمال کیا گیا تھا عدالت نے اس کو خارج کر دیا تھا، عمران ریاض نے تقریر کی، ویڈیو نہیں بنائی، ویڈیو کو سرکولیٹ بھی نہیں کیا، 14 جنوری کو عمران ریاض نے ایف آئی اے کو خط لکھ کر پوچھا تھا کہ میرے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو بتایا جائے۔
میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے استدلال کیا کہ مقدمہ نومبر 2022 سے درج ہوا ہے، عمران ریاض جہاں کام کرتے ہیں وہاں سے ایف آئی اے دفتر کا فاصلہ 500 میٹر ہے، ایف آئی اے والے روز عمران ریاض خان کا وی لاگ دیکھتے ہیں مگر پہلے کارروائی کیوں نہیں کی؟
عمران ریاض خان کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے اپاہج ایجنسی ہے، عمران ریاض خان درج مقدمے میں جو بیان کیا گیا اس کو تسلیم کرتے ہیں، جس بیان کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا گیا اس بیان کو عمران ریاض سر کا تاج سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے والے ٹوئٹر، یوٹیوب پاس ورڈ لینے کے لیے ریمانڈ مانگ رہے ہیں، ایف آئی اے کے اہلکار موبائل کے لاک توڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور وہ پاس ورڈ توڑ چکے ہیں، جس بیان کا الزام ایف آئی اے لگا رہا ہے اس کو تسلیم کر لیا، مزید ریکوری کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
اس پر ایف آئی اے کے وکیل نے دلائل دیے کہ ایف آئی اے نے جو مقدمہ درج کیا وہ بالکل درست ہے اس لیے (عمران ریاض) سے تفتیش کے لیے 14 دن کا جسمانی ریمانڈ طلب کیا جائے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران ریاض پر درج ایف آئی آر بالکل درست ہے، لہٰذا ان کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا جائے تاکہ مزید تفتیش کی جائے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعد ازاں جوڈیشل مجسٹریٹ نے عمران ریاض کے خلاف درج مقدمہ ڈسچارج کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ صحافی و اینکر پرسن عمران ریاض خان کو گزشتہ روز ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا تھا، ان کے وکیل نے کہا تھا کہ عمران ریاض کو لاہور ائیر پورٹ سے حراست میں لیا گیا، ان پر درج مقدمے کی تفصیل نہیں بتائی جارہیں، ایف آئی اے کی گرفتاری خلاف قانون ہے، عدالتی فورم پر مقابلہ کریں گے۔
ایف آئی اے نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) 2016 کے سیکشن 11، 20 اور 24 کے تحت عمران ریاض خان کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، علاوہ ازیں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131/109 (بغاوت پر اکسانا)، 500 (ہتک عزت کی سزا) اور 505 بھی ایف آئی آر میں شامل کی گئی ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق عمران ریاض خان کو ایک کانفرنس کے دوران اشتعال انگیز تقریر کرنے میں ملوث پایا گیا جو ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اس تقریر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے قومی اور عالمی سطح پر مزید شیئر کیا گیا۔
ایف آئی آر میں جس تقریر کے مندرجات کا ذکر کیا گیا ہے اس میں عمران ریاض خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے بطور آرمی چیف اپنی آخری تقریر میں فوج کے غیر سیاسی رہنے کے عہد پر سوال اٹھایا تھا۔
ایف آئی آر میں نشاندہی کی گئی کہ یہ معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کی یہ اشتعال انگیز ویڈیو کئی بار شیئر کی گئی اور اس ویڈیو کا ایک حصہ ایک ٹوئٹر صارف نے پوسٹ کیا جسے عمران ریاض خان نے ری ٹویٹ کیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ عمران ریاض خان کی جانب سے جان بوجھ کر عوامی سطح پر اس طرح کے اشتعال انگیز بیان عام شہریوں یا کسی بھی طبقے کے لیے خوف یا خطرے کا باعث بن سکتا ہے اور اس کے ذریعے کسی بھی شخص کو ریاست مخالف اقدامات کے ارتکاب پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
بادی النظر میں عمران ریاض خان نے پیکا (2016) کے سیکشن 11، 20 اور 24 کے تحت جرائم کا ارتکاب کیا ہے، لہذا ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے جبکہ دیگر ساتھیوں (اگر کوئی ہے) کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس جولائی میں بھی عمران ریاض خان کو اسلام آباد جاتے ہوئے اٹک میں درج بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا تھا، تاہم چند روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے ان کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر ضمانت منظور کرلی تھی۔