سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ کتنےارکان کا ہے، یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ کلیئرکرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات ملتوی کرنے کے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کرلیا جائے، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یکم مارچ کے فیصلے پرمیرا جواب ہےکہ قانون صدرکو اختیاردیتا ہے کہ وہ تاریخ دیں، اگرآپ یکم مارچ کے فیصلے پر وضاحت چاہتے ہیں تو الگ سے درخواست دیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نےکہا سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں، اگرالیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا توکسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں، دو معزز ججز نے فیصلہ دیا ہے، ان دو ججزکی اپنی رائے ہے لیکن اس کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق نہیں۔
دورانِ سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ کتنےارکان کا ہے، یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتادیں کہ کیا آئین 90 دنوں میں انتخابات کرانے کا تقاضہ کرتا ہے یا نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کرسکتا ہے؟
جسٹس جمال کے ریمارکس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ کلیئرکرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر سے سوال کیا کہ کیا آپ نے اپنی سیاسی قیادت سے بات کی؟ پی ٹی آئی کو پہل کرنا ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں، آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست وگریباں ہونے کے بجائے اُن لوگوں کا سوچیں۔
اس پر پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر ہوئی تو یہ بحران مزید بڑھے گا، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ تحریک انصاف اگر پہل کرے تو ہی حکومت کو کہیں گے۔