حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل صدر مملکت کو دوبارہ بھجوا دیا، صدر نے دس دن میں دستخط نہ کیے تو بل از خود قانون بن جائے گا۔
عدالتی اصلاحات سے متعلق یہ بل گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کثرت رائے سے ترامیم کے ساتھ منظور ہوا تھا۔
بل پرصدر کے دستخط کے بعد نیا قانون بننے کی صورت میں چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہوجائے گا اور تین سینئر ترین ججز ازخود نوٹس سے متعلق فیصلہ کرسکیں گے۔
صدر عارف علوی نے عدالتی اصلاحات سے متعلق یہ بل 3 روزقبل 2023 آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظرثانی کے لئے پارلیمنٹ کو واپس بھجوایا تھا۔
صدر کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اس بل پر از سر نو غور کرے، مسودہ بل بادی النظر میں پارلیمنٹ کے دائرہ اختیارسے باہر ہے، بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ کے جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی، خود مختاری اورآزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے، آرٹیکل 67 پارلیمان اور آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو تحفظ فراہم کرتا ہے، یہ آرٹیکل دونوں اداروں کے اختیار میں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔
صدر کے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر دستخط سے انکار کے بعد بل صدر کے اعتراضات کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس موصول ہوا تھا جسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ منظور کیے جانے کے بعد صدر مملکت کو بھجوایا گیا ہے۔
صدرعارف علوی کی جانب سے بل پر10 دن میں دستخط نہ کیے جانے کی صورت میں ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل‘ ازخود قانون بن جائے گا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیا ہے؟
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت سو موٹو نوٹس لینے کا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے 3 سینئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔
بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہوگا، بنچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے۔
نئی قانون سازی کے تحت نواز شریف کو از خود نوٹس پر ملی سزا پر اپیل کا حق ملے گا جبکہ نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، جہانگیر ترین اور دیگر فریق بھی اپنے خلاف فیصلوں کو چیلنج کرسکیں گے۔