سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 (چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق) کے خلاف تین مختلف آئینی درخواستوں کی سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس منیب اختر ، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے 13 اپریل کو مجوزہ قانون پر عمل درآمد روک دیا تھا، درخواست گزاروں کے وکلا آج عدالتی اصلاحات قانون پر دلائل دے رہے ہیں۔
آج سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ کچھ فریقین کے وکلا ویڈیولنک پر پیش ہوں گے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کوئی آخری سماعت نہیں، سب کو سنیں گے، ہمارا گزشتہ سماعت کا حکم امتناع برقرار ہے، اس کیس میں عدلیہ کی آزادی سمیت دیگر اہم نکات سامنے آئے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے، سپریم کورٹ کے رولز سے متعلق قانون واضح ہے، تمام فریقین کے وکلا تحریری دلائل جمع کرائیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی قانون سازی سے متعلق پارلیمنٹ کی کارروائی کے منٹس پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
14 اپریل کو عدالت نے 9 سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ قانون پرکسی بھی انداز میں تاحکم ثانی عمل درآمد نہیں ہوگا ، آٹھ صفحات کے پیشگی حکم امتناع میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کے بارے میں بل کو جس لمحے صدر کی منظوری مل جاتی ہے یا (جیسا کہ معاملہ ہو) یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح کی منظوری دے دی گئی ہے، اسی لمحے سے اور اگلے احکامات تک جو ایکٹ وجود میں آئے گا، وہ نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی طریقے سے اس پر عمل کیا جائےگا۔
آٹھ رکنی بینچ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو اس کے صدر کےذریعے پاکستان بار کونسل کو اس کے وائس چیئرمین کے ذریعے نوٹس جاری کیا جب کہ 9سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کیا، حکم نامے میں کہا گیا کہ اگر یہ سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے وکیل کے ذریعے حاضر ہو سکتی ہیں، ان 9 سیاسی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ،پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ،بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) شامل ہیں۔