نیب راولپنڈی نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس میں القادر یونیورسٹی کو ملنے والے عطیات کا ریکارڈ مانگ لیا۔
جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں انسداد دہشتگردی عدالت میں پیشی کے بعد عمران خان نیب راولپنڈی آفس پہنچے، عمران خان کی اہلیہ نیب راولپنڈی آفس کے باہر گاڑی میں موجود ہیں۔
نیب نے آج سابق وزیر اعظم کو برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاونڈ اسکینڈل تحقیقات میں شامل تفتیش ہونے کے لیے طلب کیا تھا، اس سے قبل نیب ٹیم نے عمران خان کو 18 مئی کو طلب کیا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔ عمران خان نے آج بھی اپنی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کیا ہے، گزشتہ دنوں نیب نے عمران خان کو اسی کیس میں گرفتار کیا تھا۔
نیب کی کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم نے عمران خان کو باضابطہ شامل تفتیش کرلیا ہے۔
ذرائع کے مطابق عمران خان سے کیس سے متعلق 20 سوالات کے جواب طلب کیے گئے۔
نیب کی جانب سے عمران خان سے برطانوی کرائم ایجنسی کے ساتھ خط وکتابت کے ریکارڈ سے متعلق سوالات کیے گئے، نیب نے عمران خان سے 19 کروڑ پاونڈز کے فریزنگ آرڈرز کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ عمران خان نے بتایا کہ 190 ملین پاؤنڈز سے متعلق فیصلے کا ریکارڈ کابینہ ڈویژن کے پاس ہے، این سی اے برطانیہ کے ریکارڈ تک میری رسائی نہیں، القادر ٹرسٹ کا ریکارڈ نیب کو پہلے ہی مل چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق نیب نے عمران خان سے القادر یونیورسٹی سے ملنے والے تمام عطیات کا ریکارڈ طلب کرلیا، عمران خان سے القادر ٹرسٹ کو عطیات دینے والوں کا ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے، عمران خان نے خود القادر ٹرسٹ کوکتنے عطیات دیے؟ اس کا ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ القادر یونیورسٹی کے پنجاب ہائر ایجوکیشن سے الحاق کا ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے، القادرٹرسٹ اور ملزمان کی کمپنی کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ کا ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے۔
اے ٹی سی سے 8 مقدمات میں ضمانت منظور
اس سے قبل عمران خان اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت (اے ٹی سی) میں پیش ہوئے، عدالت نے 8 جون تک عمران خان کی 8 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور کرلی۔
عمران خان انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش ہوئے، ان کے خلاف اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں توڑپھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور دفعہ144 کی خلاف ورزی کے مقدمات درج ہیں۔
اے ٹی سی جج راجہ جواد عباس نے عمران خان کی درخواست ضمانت کی سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف 8 کیسز ہیں، عمران خان کو شدید سکیورٹی خدشات ہیں، تمام مقدمات میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی گئی ہے جس میں عمران خان شامل تفتیش ہوئے ہیں، عمران خان کو کوئی انا کا مسئلہ نہیں، اگر کوئی دیگر تفتیش چاہیے تو عمران خان شامل تفتیش ہونے کے لیے تیار ہیں۔
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ عمران خان سے کوئی سوال کرنا ہے تفتیشی افسر نے تو آج کرلیں، 8 کیسز میں آئندہ تاریخ پر معاونت کرنےکو تیار ہوں۔
جج راجہ جوادعباس نے ہدایت کی کہ آج دلائل مکمل کرلیں۔ وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی نے نیب راولپنڈی جانا ہے، عمران خان کی 8 مقدمات میں ضمانت منظور کی جائے، ہماری استدعایہی ہےکہ کمرہ عدالت میں ہی شامل تفتیش کیا جائے۔
اے ٹی سی جج کا کہنا تھا کہ آپ تو ایک کیس میں شامل تفتیش ہوچکے اسی پر دلائل دے دیں۔
پراسیکیوٹر عدنان علی کا کہنا تھا کہ 4 مقدمات میں جےآئی ٹی بنی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کا عدالتی حکم نامہ پیش کیا،27 مارچ کو ایک ہی حکم نامہ ہوا، نوٹسز ہوتے رہے، 6 اپریل، 18 اپریل کو پیش ہوں، لیکن عمران خان پیش نہیں ہوئے،3 مئی کو کہا کہ اگلی تاریخ پر لازمی پیش ہوں لیکن شامل تفتیش نہیں ہوئے، پھر کہا گیا کہ ٹانگ خراب ہے، عمران خان پیش نہیں ہو سکتے، عدالت سے استدعا ہےکہ ہدایت دیں کہ عمران خان مقدمات میں شامل تفتیش ہوں۔
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی سے سوالنامہ دینے یا ویڈیولنک پرشامل تفتیش ہونےکا کہاگیا، عمران خان کی عدالت پیشیوں پر پیسے لگتے ہیں کیونکہ کیسز بے انتہا ہیں۔
جج نے استفسار کیا کہ پنجاب کے جو مقدمات تھے ان میں جے آئی ٹی نے کیسے کام کیا؟
وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ جے آئی ٹی بنائی گئی اور پوری جے آئی ٹی زمان پارک میں آئی اور شامل تفتیش کیا گیا۔
جج کا کہنا تھا کہ جب عمران خان پولیس لائنز میں موجود تھے تو کیوں شامل تفتیش نہیں کیا؟ عدالت سے فیصلہ لیتے اور پولیس لائنز میں عمران خان کو شامل تفتیش کرلیتے، اسلام آباد کی جے آئی ٹی نے شامل تفتیش کیوں نہیں کیا؟
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن کی نیت خراب ہے، تفتیش کرنا ہی نہیں چاہتے، 71 سال کا شخص 140 سے زائد مقدمات میں شامل تفتیش ایک ساتھ کیسے ہوسکتا ہے۔
اس دوران عمران خان نےجج کے شامل تفتیش ہونے سے متعلق سوال پر اٹھ کر وکیل کے ساتھ سرگوشی کی، ان کا کہنا تھا کہ مجھے سکیورٹی تھریٹس تھےکیسے شامل تفتیش ہوتا؟ وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ سیدھی بات ہے، سوالنامہ دیں، ہم تفتیش میں شامل ہوجائیں گے۔
عمران خان اپنی نشست سے اٹھ کر روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ مجھ پر وزیرآباد میں قاتلانہ حملہ ہوا، دوسرا حملہ جوڈیشل کمپلیکس میں ہونے والا تھا، گھر سے نکلتاہوں تو ذہن میں یہی ہوتا کہ قاتلانہ حملہ ہوگا، وزیرداخلہ نے خود کہا کہ میری جان کو خطرہ ہے، میری عدالتی پیشیوں پر سسٹم رک جاتاہے، جیسے لاہور ہائی کورٹ نے کہا ویسے مجھے شامل تفتیش کردیں۔
جج نے سوال کیا کہ اسلام آباد کی جے آئی ٹی کہاں ہے؟ اگر تفتیش کرنی ہے تو عدالت میں موجود کیوں نہیں؟ جے آئی ٹی اسلام آباد عدالت کو بتائے کہ کیسے شامل تفتیش کرناچاہتے ہیں، سنجیدگی کا یہ حال ہےکہ عدالت میں ہی موجود نہیں، آدھے گھنٹے میں عدالت پیش ہوں۔
عدالت نے 8 جون تک عمران خان کی 8 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور کرلی۔