وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملاقات کی اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرض پروگرام سے متعلق تبادلہ خیال کیا۔
ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے امریکی سفیر سے باہمی دلچسپی کے امور پرگفتگو کی اور امریکی سفیرکو آئی ایم ایف کے قرض پروگرام سے آگاہ کیا۔
ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا ہےکہ اسحاق ڈار نے امریکی سفیر سے آئی ایم ایف سے قرض بحالی پروگرام پر کردار ادا کرنےکو کہا
خیال رہے کہ گزشتہ روز تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے باوجود معاہدے میں غیر معمولی تاخیر ہو رہی ہے مگر چین ایک بار پھر ہمارے ریسکیو کے لیے سامنے آیا ہے اور اس نے حالیہ ہفتوں، مہینوں میں پاکستان کی بے مثال مالی مدد کی۔
وزیرمملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نےکہا کہ تین مختلف ممالک نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے 20 سے 25 ارب ڈالرز مختص کر دیے، حقیقت میں اب یہ پلان اے اور آئی ایم ایف پلان بی ہے۔
حکومتی پلان بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس چیز کو پلان بی کہا جا رہا تھا آج وہ لوگوں کے سامنے آگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس طریقہ کار کے پیچھے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور چین جیسے دوست ممالک کی یقین دہانیاں ہیں، ان ممالک سے یہ بات طے کرلی گئی ہے کہ وہ کن کن شعبوں میں سرمایہ کاری کریں گے۔
مصدق ملک کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں کو سہولت دینے کے لیے تین سطحوں پر کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جن میں سے ایک کمیٹی کی سربراہی خود وزیراعظم کریں گے جس میں کابینہ کے اراکین اور آرمی چیف بھی ہوں گے۔
آئی ایم ایف پروگرام رول اوور نہ ہوا تو ڈیفالٹ کا خطرہ ہے: بلوم برگ
دوسری جانب امریکی جریدے بلوم برگ نے خبردار کیا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام رول اوور نہ ہوا تو پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ ہے۔
بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی بجٹ پرآئی ایم ایف اعتراض نے قسط نہ ملنے کے خدشات بڑھائے ہیں، 30 جون کو ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی قسط نہ ملنے کا خدشہ بڑھا ہے۔
بلوم برگ کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قلت نئے مالی سال کی پہلی ششماہی میں شدید اور طویل ہوگی، پروگرام رول اوور نہ ہونا ڈیفالٹ کا خطرہ خاطر خواہ بڑھائے گا، فنڈ پروگرام کی عدم بحالی معاشی نمو پر بھی اثر انداز ہوگی اوراس کے بغیر مہنگائی اورشرح سود توقعات سے زیادہ بڑھے گی۔
امریکی جریدے کے مطابق آئی ایم ایف کو ٹیکس بیس نہ بڑھانے اور ایمنسٹی اسکیم پر اعتراض ہیں، جون تک حکومت کو 90 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے اور جولائی سے دسمبر تک پاکستان کو اضافی 4 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے، فنڈ پروگرام کے بغیر 4 ارب ڈالر زرمبادلہ ذخائر سے یہ ادائیگی دشوار ہوگی۔