نگراں وزیراعظم کے لیے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے نام پرمسلم لیگ ن میں اختلافات کھل کر سامنے آگئےہیں۔
پارٹی رہنماؤں کا ایک گروپ اسحاق ڈار کو نگراں وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہے تو دوسرا اسکی مخالفت میں دلائل دے رہا ہے،یہ سوچے بغیر کہ دونوں صورتوں میں اس کا نقصان ن لیگ کو ہوگا۔
یہ تو ابھی واضح نہیں کہ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کسے پارٹی کی جانب سے نگراں وزیراعظم کا موزوں ترین امیدوار سمجھتے ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف ڈیل کا کرشمہ کر دکھانے کا سہرا اسحاق ڈار ہی کے سر ہے ورنہ مفتاح اسماعیل جیسے پارٹی رہنماؤں کی تنقیدی زبانوں کو تالے نہ لگتے۔
قاسم کے ابا اوران کے حواری ہی نہیں، اقتصادی معاملات کو جاننے والے بھی کہتے رہے تھے کہ پاکستان اس بار دیوالیہ ہونے کو تھا کیونکہ برآمدات نام کو نہ تھیں اور عالمی قرضے ملنے کا امکان دور دور تک نہ تھا، نوبت یہ تھی کہ آئی ایم ایف کے سارے مطالبات ماننے کے باوجود ماتھا رگڑا جارہا تھا مگر قرض کی رقم جاری کرنے پر آمادگی تو کُجا تیور پر بل ہی ختم نہیں ہورہے تھے۔ یہ اسحاق ڈار ہی تھے جنہوں نے معیشت کو نیا وینٹی لیٹر لگایا اور قرض کی رقم قسطوں ہی میں سہی، ممکن بنائی۔
سوال یہ ہے کہ معیشت کو سنبھال کر اتحادیوں کو الیکشن میں جانے کے قابل بنانے والے شخص کے خلاف ن لیگ یہ کھیل کیوں کھیل رہی ہے۔ پارٹی رہنماؤں کو اعتماد میں لیے بغیر اور اتحادیوں سے مشاورت کیے بنا اسحاق ڈار کے نام کا شوشہ چھوڑا کیوں گیا، کیا اس کا مقصد جانے یا انجانے میں اپنی ہی پارٹی کو نقصان پہنچانا تو نہیں؟
ن لیگ کے بعض رہنما سمجھتے ہیں کہ عوام آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کا ذمہ دار وزیر خزانہ کوقرار دے رہے ہیں ، اسحاق ڈار کو نگراں وزیراعظم بنا دیا گیا تو پی ٹی آئی کو اقربا پروری کا الزام لگانے کا بھی موقع مل جائے گا۔
یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے مگر یہ ماننا پڑے گا کہ ن لیگ ہو ، پیپلزپارٹی یا دیگر اتحادی جماعتیں، کوئی بھی عوام کو یہ بات نہیں سمجھا سکی کہ مہنگائی کا حالیہ طوفان حکومت کی نااہلی نہیں،عالمی بحران کے سبب ہے۔
اتحادی حکومت کو مہنگائی کا قصور وار قرار دینا لوگوں کی آنکھوں مِں دھول جھانکنے کے مترادف ہے کیونکہ یہ مہنگائی یوکرین کے نام پر روس سے مغربی ممالک کی لڑائی کا تنیجہ ہے ، اب عالمی فوڈ چین اور توانائی کے ذرائع محدود تر ہوچکے ہیں اور پاکستان جیسے ممالک پسے ہوئے عوام یا بدحالی کا شکار اداروں کو سبسڈی یعنی افیون کی گولی دینے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔
جہاں تک اقربا پروری یعنی اسحاق ڈار کے نوازشریف کا سمدھی ہونے کا تعلق ہے تو مسلم لیگ ن کے قائد نے ڈار کو بار بار وزیرخزانہ رشتہ داری کی وجہ سے نہیں ،ان کی صلاحیتوں کی بنیاد پر بنایا ہے۔جملے بازی کی حد تک کچھ بھی کہہ لیا جائے، کوئی سیاستدان اس بات کا رسک نہیں لے سکتا کہ ملکی خزانے کی چابی ایک ایسے اناڑی کو دیدی جائے جس کے اقدامات پوری پارٹی کو لے بیٹھیں۔
اسحاق ڈار کو اب نگراں وزیراعظم بنایا جاتا ہے یا نہیں، یہ الگ بات، ضرورت اس چیز کی ہے کہ ایک ایسے شخص کو یہ عہدہ دیا جائے جو یقینی بنائے کہ آئی ایم ایف کی ڈیل جاری رہےتاکہ عالمی ادارہ اگلی بار اس سے کہیں زیادہ سخت شرائط عائد کرکے عوام کا مزید گلا نہ گھونٹے۔
نگراں حکومت میں اتحادیوں کے بااعتماد شخص کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ خدشات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں کہ الیکشن کرائے بھی جائیں گے یا نہیں، خود پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی انتخابات ہونے سے متعلق کئی سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔
اسحاق ڈار جیسے شخص کو نگراں وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا تو نہ صرف ن لیگ بلکہ تمام اتحادی مطمئن رہیں گے کہ نگراں حکومت اپنی مدت کو طُول دینے کی کوشش نہیں کرے گی اور الیکشن کراکے اپنی راہ لے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس صورت میں ن لیگ کو یہ ذمہ داری بھی لینا ہوگی کہ الیکشن کو آزاد اور شفاف تر بنایا جائے کیونکہ چھوٹی سی غلطی ن لیگ کی ساکھ کو ہمیشہ کیلئے داغدار کردے گی۔
ایسے میں اسحاق ڈار کا نام نگراں وزیراعظم کے طور پر لیا جانا اوراتحادیوں سے پہلے اپنی ہی پارٹی کی جانب سے ان کی مخالفت نے ایک اور سوال بھی پیدا کیا ہے اور وہ نوازشریف کی وطن واپسی سے متعلق ہے۔
یہ واضح ہے کہ نوازشریف کے انتہائی بااعتماد ساتھی کو نیچا دکھانے سے انگلی صرف اسحاق ڈار کی ساکھ پر نہیں اٹھے گی، ہدف نوازشریف بھی بنیں گے اوراس کے نتیجے میں الیکشن سے پہلے ن لیگ کے قائد کا وطن آنا مشکل ہوجائے گا۔
اسحاق ڈار ہی ن لیگ میں ان گنتی کے چند سرکردہ افراد میں سے ہیں جو نوازشریف کی وطن واپسی میں پارٹی کی فتح دیکھ رہے ہیں، ایسے شخص کانام لے کر اسے بدنام کیاجانا ن لیگ کی ناعاقبت اندیشی ہے جس کا براہ راست فائدہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کو ہوگا یا اس پی ٹی آئی کو جس کا قوم پر چڑھا بخار سب مل کر اتارنے کی کوشش میں ہانپ رہے ہیں۔