سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس میں نظر ثانی درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی زیر سربراہی بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔
شیخ رشید کی نظرثانی درخواست واپس لینے پر سپریم کورٹ نے خارج کر دی،چیف جسٹس نے شیخ رشید سے استفسار کیا کہ آپ نے نظرثانی کی درخواست دائر ہی کیوں کی تھی، نظرثانی دائر کر کے چار سال لٹکائے رکھا۔ یہ نہیں ہوگا کہ اوپر سے حکم آیا ہے تو نظرثانی دائر کر دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا سپریم کورٹ کو کوئی باہر سے کنٹرول کر رہا ہے، نظرثانی کی درخواست آجاتی ہے پھر کئی سال تک لگتی ہی نہیں، پھر کہا جاتا ہے کہ فیصلے پر عمل نہیں کیا جا رہا کیونکہ نظرثانی زیر التوا ہے۔
ریاست کرپشن اور اسمگلنگ کرنے میں معاونت کرتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک ہی دن میں اتنی درخواستیں کیسے داخل ہوئی تھیں؟چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس پر ابھی ایک کمیشن بنا ہے، یہ کوئی مذاق نہیں، معاملے پر پورے ملک کو سر پر نچا دیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کو کوئی کیا باہر سے کوئی کنٹرول کرتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ ہم ججز جوابدہ ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سب کو پتہ ہے کہ درخواستیں کس نے داخل کروائیں لیکن کوئی بولتا نہیں، ہم تنقید کو برداشت کرتے ہیں لیکن سسٹم کومیناپولیٹ نہیں کرنے دیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارا کوئی اور دشمن نہیں ہم خود اپنے دشمن ہیں،مومن کبھی جھوٹانہیں ہوسکتا۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے کمیشن کے تشکیل کا نوٹیفکیشن عدالت میں جمع کرادیا ہے، اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نوٹیفکیشن پڑھیں گے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ججز سمیت سب لوگ قابل احتساب ہیں،نظر ثانی درخواستیں اتنا عرصہ کیوں مقرر نہیں ہوئیں یہ سوال ہم پر بھی اٹھتا ہے،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سپریم کورٹ کو اس وقت کوئی عدالت سے باہر کی قوتیں کنٹرول کر رہی تھیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کمیشن نے ان الزامات کا تعین کرنا ہے جو سنجیدہ نوعیت کے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو ایم این اے اوروزراء رہ چکے وہ تو ذمہ دار ہیں ناں، جلاؤ گھیراؤ کا کہتے ہیں تو اس پر کھڑے بھی رہیں ناں۔