پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن نے بھی سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر تحریک عدام اعتماد لانے کا مولانا فضل الرحمان کا دعویٰ مسترد کردیا۔
پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملک احمد خان کا کہنا تھا جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے تو اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو تحریک واپس لینے کا مشورہ دیا تھا مگر مولانا فضل الرحمان نے جنرل باجوہ کے مشورے کی مخالفت کی اور تحریک عدم اعتماد پر ہی اصرار کیا۔
ملک احمد خان کا کہنا تھا سابق وزیراعظم کے مستعفی ہونے اور الیکشن دوبارہ کرانے کی پیشکش انہیں بہتر لگی تھی مگر مولانا فضل الرحمان نے جنرل باجوہ کی اس تجویز کی سخت مزاحمت کی تھی۔
ن لیگ کے ملک احمد اور پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی کے بیانات پر ترجمان جے یو آئی کے حافظ حمداللہ نے ردعمل میں کہا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دے کر پارلیمنٹ اور جمہوریت کی توہین کی، کیا ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے جنرل باجوہ کو 3 سال کی ایکسٹینشن نہیں دی؟
حافظ حمد اللہ کا کہنا تھا جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے والی پارٹیاں اس کے کہنے پر تحریک عدم اعتماد بھی لا سکتی ہیں، جے یو آئی نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی برملا مخالفت کی تھی اور مولانا آج بھی اس مؤقف پر قائم ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت ختم کرے، پیپلز پارٹی کی قیادت رات کی تاریکی میں بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملنے کے لیے منتیں کرتی رہی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان نے نجی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران انکشاف کیا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر لائی گئی تھی اور تحریک عدم اعتماد کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید بھی آن بورڈ تھے، فیض حمید نے کہا تھا عمران خان کی حکومت کے خلاف جو کچھ بھی کرنا ہے آئینی حدود میں رہتے ہوئے کیا جائے۔
مولانا فضل الرحمان کے انکشاف پر پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا قدرت کا قانون ہے ہر چیز اپنی اصلیت پر جاتی ہے، مولانا قوم کو بتائیں کہ انہوں نے دھرنا کس کے کہنے پر شروع کیا اور پھر کس کے حکم پر ختم کیا؟ مولانا یہ بھی بتائیں کہ حکومت ختم ہونے کے بعد کی صورتحال میں سب سے زیادہ مستفید کون ہوا؟