آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے گندم کے حالیہ اسکینڈل کے خصوصی آڈٹ کا حکم دیا گیا ہے۔ اس اسکینڈل کی وجہ سے مبینہ طور پر 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔
آڈیٹر جنرل نے منگل کو گندم کی خریداری کے بحران 24-2023 پر خصوصی تحقیق کا حکم دیا۔
ذرائع کے مطابق، ’’خصوصی تحقیق‘‘ کسی خاص کیس کے خصوصی آڈٹ کی طرح ہے، مطلوبہ معلومات کے حصول کیلئے خوراک کے شعبے سے وابستہ وفاقی اور صوبائی حکام کے علاوہ پاکستان کسٹمز سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔
آڈیٹر جنرل کی طرف سے تمام صوبائی اور علاقائی (کشمیر، گلگت بلتستان) ڈائریکٹر جنرل آڈٹ کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اپنے متعلقہ محکمہ خوراک سے ایک ہفتے کے اندر درج ذیل معلومات فراہم کرنے کو کہیں:
۱) غذائی سال22-2021، 23-2022 اور24-2023 کیلئے گندم کی منظور شدہ خریداری پالیسی۔
۲) گندم کی کمی کی مکمل فہرست، مقام، گنجائش، قلت کی نوعیت (یعنی ہاؤس ٹائپ گودام، سائلو، ریزڈ پلیٹ فارمز (گنجی کٹس) وغیرہ۔
۳) غذائی سال 2021-22، 2022-23 اور 2023-24 کیلئے گندم کی پیداوار کے اہداف اور ان اہداف کے مقابلے میں حقیقی پیداوار۔
۴) خوراک کے سال 22-2021، 23-2022 اور 24-2023 کیلئے گندم کی منظور شدہ ریلیز پالیسی۔
۵) جاری کردہ گندم کی مکمل تفصیلات،22-2021، 23-2022 اور 24-2023کیلئے میٹرک ٹن میں مل/ وصول کنندہ کے حساب سے۔
۶) 2021-22، 2022-23 اور 24-2023کے دوران درآمد کردہ گندم کی مکمل تفصیلات (اگر ہے تو)۔
۷) معاون ریکارڈ کے ساتھ فراہم کردہ گندم کی سبسڈی کی مکمل تفصیلات (براہ راست اور بالواسطہ دونوں)۔
تمام صوبائی محکمہ خوراک کو ایک پروفارما بھی دیا گیا ہے جس میں متعلقہ حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ یہ پروفارما پُر کرکے آڈٹ حکام کو فراہم کریں۔
وفاقی سطح پر ڈائریکٹر جنرل کمرشل آڈٹ اینڈ ایوالیوشن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پاکستان ایگریکلچر اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن لمیٹڈ (پاسکو)، فلور ملز اینڈ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) سے مطلوبہ معلومات حاصل کریں۔
ڈائریکٹر جنرل آڈٹ (ان لینڈ ریونیو اینڈ کسٹمز) نارتھ، لاہور اور ڈائریکٹر جنرل آڈٹ (ان لینڈ ریونیو اینڈ کسٹمز) ساؤتھ کراچی کو بھی پاکستان کسٹمز سے مطلوبہ معلومات اکٹھا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
رپورٹس کے مطابق 24-2023 کے دوران اضافی گندم درآمد کی گئی جس سے 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ بتایا گیا کہ گزشتہ سال28.18 ملین ٹن گندم پیدا ہونے کے باوجود نگراں حکومت نے 2.45 ملین ٹن مزید درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔
موجودہ حکومت کے ابتدائی چند ہفتوں کے دوران اضافی درآمد کا سلسلہ جاری رہا۔ اضافی گندم کی درآمد سے صوبائی حکومتوں بالخصوص پنجاب نے کاشت کاروں سے بہت کم گندم خریدی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کاشتکاروں نے سرکاری نرخ سے کم قیمت پر گندم فروخت کی جس سے انہیں بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔