پیکا ترمیمی آرڈیننس؛ ایف آئی اے کوصحافیوں کیخلاف غلط استعمال کیا گیا،عدالت

پیکا ترمیمی آرڈیننس سے متعلق کیس میں عدالت نے ریمارکس دیے اس عدالت کے سامنے جو کیسز ہیں ان میں ایف آئی اے کے اختیارات کا غلط استعمال ثابت ہو چکا ہے۔

پیکا ترمیمی آرڈی نینس کے خلاف پی بی اے، صحافتی تنظیموں اور سینئر صحافیوں کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے تمام درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود اور ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آڈیننس کو بیک وقت دونوں ایوانوں میں پیش نہیں کیا جا سکتا، پیکا ایکٹ کے سیکشن 20 کو قانون میں موجود رہنا چاہیے۔
قاسم ودود نے دلائل دیے کہ یہ صرف پاکستان میں نہیں دیگر ممالک میں بھی کچھ پابندیوں کے ساتھ موجود ہے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا حکومت تسلیم کرتی ہے کہ پبلک آفس ہولڈرز اور ادارے اس قانون میں نہیں آتے۔
قاسم ودود نے جواب دیا کہ پبلک آفس ہولڈرز کے کاموں پر تنقید اور ان کا احتساب کیا جا سکتا ہے۔ پبلک آفس ہولڈرز کی ذاتیات یا ان کے رشتے داروں پر حملے نہیں ہونے چاہئیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جوخرابیاں سامنے آئیں گی ان کو وقت کے ساتھ ختم کیا جا سکے گا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم سیکھ جائیں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ کے سیکھتے سیکھتے لوگوں کی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔

قاسم ودود نے کہا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے عدالتیں موجود ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسی لیے ایف آئی اے نے ایس او پیز جمع کرا کے عدالت سے فراڈ کیا۔ سوشل میڈیا تو معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کیوں سوشل میڈیا پربدتمیزی اوربدتہذیبی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوشل میڈیا بہت خطرناک ٹُول ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سوشل میڈیا کو کیوں قصوروار ٹھہرائیں۔ بندوق سیلف ڈیفنس کیلئے ہوتی ہے لیکن کسی بندر کے ہاتھ دیدیں تو وہ خطرناک ہے۔ کیا آئین یا قانون توڑنے کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سوسائٹی میں عدم برداشت کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے قانون بنائے جائیں جن کا غلط استعمال ہو سکے۔ اس عدالت کے سامنے جو کیسز ہیں ان میں ایف آئی اے کے اختیارات کا غلط استعمال ثابت ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ان کیسز میں اختیارات کا غلط استعمال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں۔ ایف آئی اے اختیارات کو صحافیوں کے خلاف غلط استعمال کیا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے کے ان اقدامات کی وجہ سے قانون کو ختم نہیں کیا جانا چاہیے۔

عدالت نے کہا کہ عدالت میں ایس او پیز دے کر پبلک آفس ہولڈرز کی شکایت پر اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ پیکا ایکٹ کی سیکشن 20 میں ریپوٹیشن کے علاوہ دیگر بھی چیزیں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگرکسی کی فیملی کی تصویریں اجازت کے بغیر شیئرکردی جائیں تو وہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ سوشل میڈیا میں کسی کو بہکایا اوردھمکایا جائے تو وہ بھی اسی میں آتا ہے۔

عثمان وڑائچ نے کہا کہ اس کے لیے الگ سے قانون موجود ہے۔
عدالت نے کہا کہ یہ تمام کیسز بھی اسی سیکشن کے تحت آتے ہیں۔ اس عدالت کے سامنے جتنے کیسز ہیں وہ صرف پبلک آفس ہولڈرز کے کیوں ہیں۔

قاسم ودود نے جواب دیا کہ عدالت کے سامنے صرف پبلک آفس ہولڈرز کے کیسز ہوں گے، ان کے علاوہ مزید بھی ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ تو پھر پبلک آفس ہولڈرز کے کیسز کو کیوں دیگر پر فوقیت دی گئی۔ بہکانے اور دھمکانے کی الگ سے سیکشن کیوں نہیں بنا دی گئی۔ ان کیسز میں تو ایف آئی اے پی ٹی اے سے بھی مدد لے سکتا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو یہ مناسب لگا ہوگا اس لئے یہ قانون سازی کی گئی۔
پی ایف یوجے، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرزاینڈ نیوزڈائریکٹرزکے علاوہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز، سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار مقصود بٹر، فرحت اللہ بابر بھی پٹیشنرز میں شامل ہیں۔

سینئر صحافی محمد مالک، اظہرعباس، علی کاظم وحید اور شکیل مسعود سمیت دیگر نے بھی پیکا ترمیمی آرڈی نینس کو چیلنج کررکھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں