اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہباز گل کی ضمانت منظور کرنے کا چھ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
ایڈیشنل سیشن جج نے 30 اگست کو شہباز گل کی درخواست ضمانت مسترد کی تو اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ شہباز گل کے خلاف اے آر وائی نیوز پر بیان دینے پر 9 اگست کو تھانہ کوہسار میں بغاوت سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے اسی روز گرفتار کیا گیا۔
اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلح افواج میں بغاوت پر اکسانے کے مقدمہ میں شہباز گل کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا کہ مقدمہ اندراج کے لیے شکایت آرمڈ فورسز یا ان کی جانب سے کسی نے درج نہیں کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا آرمڈ فورسز کا ڈسپلن اتنا کمزور نہیں کہ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان سے متاثر ہو، کوئی شواہد پیش نہیں کیے جا سکے کہ شہباز گل نے بیان سے پہلے یا بعد میں جرم کی معاونت کے لیے مسلح افواج کے کسی افسر سے رابطہ کیا۔
شہباز گل سے تفتیش مکمل ہوچکی اب جیل میں نہیں رکھا جا سکتا، انہیں مزید جیل میں رکھنا بےسود بلکہ ٹرائل سے پہلے سزا دینے کے مترادف ہو گا۔
پٹیشنر کے وکیل سلمان صفدر کے مطابق بغاوت پر اکسانے کا جرم نہیں بنتا، پٹیشنر کے وکیل نے کہا کہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا جو بدنیتی پر مبنی ہے۔
وکیل نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ بھی مطمئن ہے کہ پاکستان پینل کوڈ دفعہ 131 کے علاوہ کوئی جرم نہیں بنتا۔ پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ تقریر بغاوت کے مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
پراسیکیوٹر کے مطابق شہباز گل نے مسلح افواج کے ممبرز کو افسران کے آرڈرز نہ ماننے کا کہا اور وہ بغاوت پر اکسانے کے سنگین جرم کے مرتکب ہوئے۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا پراسیکیوٹر نہیں بتا سکے کہ شہباز گل نے جرم کی معاونت کے لیے مسلح افواج کے کسی افسر سے رابطہ کیا۔ پراسیکیوشن ایسی کوئی چیز بھی ریکارڈ پر نہیں لائی کہ آرمڈ فورسز کی جانب سے شکایت درج کرائی گئی ہو۔ کسی سیاسی جماعت کے ترجمان سے اس قسم کے لاپرواہ بیان کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آرمڈ فورسز کا ڈسپلن اتنا کمزور نہیں کہ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان سے اسے نقصان پہنچے۔ ہر سماعت پر عدالت حاضری یقینی بنانے کے لیے ٹرائل کورٹ شہباز گل کو پابند کر سکتی ہے۔ شہباز گل کی پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں پر ضمانت منظور کی جاتی ہے۔