حکومت نے گیس کی طلب اور رسد کے درمیان ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھتے فرق کے پیش نظر آنے والی سردیوں میں گیس کے بحران سے خبردار کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم سیکریٹری علی رضا بھٹی نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو اپنی بریفنگ میں بتایا کہ گیس کی سپلائی میں قدرتی طور پر شدید کمی واقع ہوئی ہے، ملک میں گیس کے ذخائر کئی برسوں سے ہر سال 10 فیصد کی شرح سے کم ہو رہے ہیں جس سے طلب اور رسد کے درمیان فرق پیدا ہو رہا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس پٹرولیم ڈویژن کی سال 20-2019 کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے لیے ہوا۔
علی رضا بھٹی نے اجلاس کو بتایا کہ یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد دنیا میں گیس کی قیمتوں میں 4 فیصد اضافہ ہوچکا ہے، مارکیٹ کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہم گیس نہیں خرید سکتے، تاہم حکومت دیگر ممالک سے گیس حاصل کرنے پر غور کر رہی ہے۔
گیس بحران اور مہنگائی کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے
پیٹرولیم سیکریٹری نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورے کے دوران قطر میں اس حوالے سے خصوصی گفتگو کی جہاں اضافی کارگو کی درخواست ایجنڈے میں شامل تھی، علاوہ ازیں پاکستان گیس کی فراہمی کے لیے آذربائیجان کے ساتھ بھی بات چیت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر گیس گھریلو صارفین استعمال کرتے ہیں جس پر حکومت کی جانب سے بھاری سبسڈی دی جاتی ہے۔
پیٹرولیم سیکریٹری نے کہا کہ پاکستان کے لیے قطر سب سے زیادہ قابل اعتماد فراہم کنندہ ہے، مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی طلب کے باوجود قطر نے ہمیں 15 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) پر ایل این جی دینا بند نہیں کی جبکہ دیگر ممالک سے وہ 60 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو وصول کر رہا ہے۔
نور عالم خان کی سربراہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سوئی ناردرن سے گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سسٹم کے نادہندگان کی تفصیلات طلب کی تھیں۔
گیس بحران کے پیشِ نظر پاکستان نے اب تک کا سب سے مہنگا ایل این جی کارگو قبول کرلیا
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے گیس کمپنیوں کو ہدایت کی کہ وہ 7 روز میں نادہندگان سے واجبات کی وصولی کریں جبکہ حکومت کو ان نادہندگان کے کنکشن فوری طور پر منقطع کرنے کی ہدایت کی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ 30 جون تک گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کی کل بقایا رقم 452.73 ارب روپے تھی جس میں سے 368 ارب 26 کروڑ روپے کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، 16 ارب 70 کروڑ روپے گردشی قرضے کی وجہ سے واجب الادا ہیں اور باقی 67 ارب 80 کروڑ روپے کی وصولی کی جارہی ہے۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وصولی کے عمل میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ نادہندگان، بالخصوص سی این جی اسٹیشنز اور فیول کمپنیوں سے ریکوری کو یقینی بنایا جائے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے فراہم کردہ اہل ہزار 800 عہدیداران کی فہرست پر بھی تبادلہ خیال کیا جنہوں نے ہیلی کاپٹر کا غلط استعمال کیا۔
اگلے چند سال میں گیس ختم ہوجائے گی، فواد چوہدری
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ ’سرکاری ہیلی کاپٹر عوامی اجتماعات اور جلوسوں میں استعمال کے لیے نہیں ہیں‘۔
نور عالم خان نے کہا کہ ’میں یہ تمام قائدین سے کہہ رہا ہوں، ہم چاروں صوبوں کو ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ ہوائی جہاز کے غلط استعمال کی جانچ کریں اور ان لوگوں سے چارجز وصول کریں جنہوں نے ہیلی کاپٹر اور ہوائی جہاز کا غلط استعمال کیا‘۔
اجلاس کے بعد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے چیئرپرسن کی تعیناتی پر بھی تشویش کا اظہار کیا جو کہ مبینہ طور پر موجودہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ دہری شہریت رکھنے والے تمام عہدیداروں کو پالیسی سازی سے دور رکھا جائے اور انہیں صرف معاون/مشیر کی ذمہ داری دی جائے۔
گیس بحران کے بجلی کی فراہمی پر اثرات ختم کرنے کیلئے حکومتی اقدامات
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے مختلف محکموں میں کام کرنے والے ان تمام افسران کی فہرست بھی طلب کی جو دہری شہریت کے حامل ہیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے یہ تجویز بھی دی کہ پی آئی اے کے سابق اور موجودہ ملازمین کے لیے مفت ہوائی ٹکٹوں کی سہولت جاری رہنی چاہیے لیکن یہ سہولت ان کے اہل خانہ تک نہیں بڑھنی چاہیے۔