بلوچستان کے ضلع چمن میں افغانستان کی حدود سے فائرنگ کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے۔
بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں حالات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے ہیں جہاں افغانستان کی حدود سے فائرنگ ہوئی ہے۔
محکمہ صحت بلوچستان کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر وسیم بیگ کے مطابق فائرنگ کے مختلف واقعات میں 8 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیااللہ لانگو نے افغانستان کی حدود سے ہونے والی فائرنگ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
وزیر داخلہ بلوچستان پاکستانی شہریوں پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر سے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی۔
وزیر داخلہ نے ضلعی انتظامیہ کو واقعے میں زخمی ہونے والوں کو تمام طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
انہوں نے ضلع بھر کی تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات کا دوربارہ ہونا امن دشمنی ہے، لہٰذا پاک فوج اپنے بارڈر کا دفاع کرنا جانتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ پالیسی پر یقین رکھتے ہیں، امن کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، ہماری فورسز اپنی بارڈر کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔
قبل ازیں ڈاکٹر وسیم بیگ نے کہا کہ زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر چمن منتقل کیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق چمن میں کشیدہ حالات کے بعد کوئٹہ کے ہسپتالوں میں بھی ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر کوئٹہ کے سول ہسپتال، بی ایم سی ہسپتال اور ٹراما سینٹر میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔
سیکریٹری صحت کے مطابق تمام طبی عملہ، ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو ہسپتالوں میں طلب کر لیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹرز، طبی عملہ اور ادویات چمن کے لیے بھی روانہ کر دی گئیں ہیں۔
خیال رہے کہ 11 دسمبر کو افغان بارڈر فورسز نے بلوچستان کے ضلع چمن میں شہری آبادی پر توپ خانے/مارٹر سمیت بھاری ہتھیاروں سے بلااشتعال اور اندھا دھند فائرنگ و گولہ باری کی تھی جس کے نتیجے میں 6 شہری جاں بحق اور 17 افراد زخمی ہوئے تھے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق یہ واقعہ 11 دسمبر کو بلوچستان کے ضلع چمن بارڈر پر پیش آیا تھا۔
بعد ازاں ایک افسر نے ڈان کو بتایا تھا کہ سرحد کے قریب لالا محمد نامی گاؤں میں جب افغان فورسز نے باڑیں اکھاڑنے کی کوشش کی تو دونوں فریقین میں کشیدگی ہوگئی جس کے بعد چمن بارڈر پر ’بابِ دوستی‘ کو بند کردیا گیا تھا، تاہم آدھے گھنٹے بعد مسافرین اور ٹریفک کے لیے سرحد کو ایک بار پھر کھولا گیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ تھوڑی دیر بعد ہی افغان فورسز نے پاکستانی سرحد میں شوکت اور الیاس نامی چوکیوں پر فائرنگ شروع کردی اور پھر افواج پاکستان نے بھی اشتعال میں جوابی فائرنگ کی، مگر پھر افغان فورسز نے شیل اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے شہری آبادی کو نشانہ بنایا تھا۔
12 دسمبر کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ بلوچستان کے ضلع چمن میں افغان فورسز کی طرف سے شہری آبادی پر بلااشتعال گولہ باری و فائرنگ کرنے کے واقعے پر افغان حکومت نے معذرت کی ہے اور اب معاملہ حل ہو چکا ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا تھا کہ چمن میں سرحد پر اشتعال انگیزی افغان فورسز کی طرف سے کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ سرحد پر باڑ کا ایک حصہ متاثر تھا جہاں ہمارے لوگ اس کی مرمت کر رہے تھے کہ افغان فورسز نے باڑ کو جیپ سے توڑ دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ کام سرحد کی سیکیورٹی کمیٹی کے پاس جانا چاہیے تھا۔
گزشتہ ماہ بھی بارڈر بند کیا گیا تھا
گزشتہ ماہ بھی اسی طرح کے واقعے کے بعد باب دوستی کو کئی دنوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
13 نومبر کو ایک مسلح شخص کی جانب سے باب دوستی پر پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کے بعد سرحد کو بند کردیا گیا تھا۔
حکام نے اس وقت بتایا تھا کہ اس واقعے کے بعد پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان ایک گھنٹے سے زائد تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔