وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہےکہ الیکشن نہ بھی ہوتا تب بھی بجٹ ایسا ہی پیش کرتے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ کے دوران اسحاق ڈار نے کہا کہ بجٹ اسٹریٹیجی پیپر میں تاخیرکی وجہ عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) کے ساتھ بات چیت میں تاخیر تھی، آئی ایم ایف نے بیرونی فنانسنگ کی شرائط رکھی جسے پورا کررہے ہیں، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے،تمام انتظامات کردیے گئے ہیں، ایک گیس پائپ لائن کا اثاثہ 50 ارب ڈالر کا پاکستان کے پاس ہے جب کہ ریکوڈک سے 6 ہزار ارب ڈالرحاصل کیے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن نہ بھی ہوتا تب بھی بجٹ ایسا ہی پیش کرتے، بجٹ میں 223 ارب روپے کے ٹیکس اقدامات کیے گئے جس میں آئی ٹی سیکٹر اور ایس ایم ایز پر توجہ دی، سی پی آئی29 فیصد اور کورانفلیشن 20 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ ہے، موجودہ ٹیکس دہندگان پرکم سے کم بوجھ ڈالنے کی کوشش کی ہے، نان فائلرپر0.6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس معیشت کو دستاویزی کرنے کے لیے لگایا گیا ہے،3.5 شرح نمو حاصل کی جاسکتی ہے، مہنگائی اور شرح نمو کے حساب سے ٹیکس کا ٹارگٹ رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کراچی پورٹ پر کنٹینرزکی کلیئرنس میں تاخیرپر چیئرمین ایف بی آر سے رپورٹ طلب کرلی ہے، اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے ہیں، اسمگلنگ کم ضرور ہوئی ہے مگر ابھی ختم نہیں ہوئی، اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ایکشن لے رہے ہیں، 5 ارب روپے مالیت کی چینی قبضے میں لی گئی ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ غیرمعمولی منافع پرٹیکس سے متعلق ترمیم کی گئی ہے، وفاقی حکومت نے اس پرقانون شامل کیا ہے اوروہی تناسب کا فیصلہ کرےگی، 99 ڈی کے قانون کے تحت 50 فیصد تک ٹیکس غیرمعمولی منافع پرلیا جائےگا۔
انہوں نے کہا کہ چین سے ایک ارب ڈالر آج یا سوموارکوآجائیں گے جو ہم نے قرض واپس کیا وہ دوبارہ مل رہا ہے، چین کے ساتھ ایک ارب ڈالرپر گفت و شنید مکمل ہوچکی ہے، بینک آف چائنا کے ساتھ بھی 30 کروڑ ڈالر پر بات چیت چل رہی ہے، چین کے سواپ معاہدے کے تحت بھی ڈالرز آئیں
9 جون کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال کا 144 کھرب 60 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔
وفاقی بجٹ 24-2023 کے اہم نکات
-مجموعی حجم 144 کھرب 60 ارب روپے
-سود کی ادائیگیوں پر 73 کھرب 3 ارب روپے خرچ ہوں گے
-ترقیاتی منصوبوں کیلئے 11 کھرب 50 ارب روپے مختص
-ایف بی آر محاصل کا تخمینہ 92 کھرب روپے
– صنعتوں پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا
-براہ راست ٹیکس وصولی کا حجم 37 کھرب 59 ارب روپے
-دفاع کے لیے 18 کھرب 4 ارب روپے مختص
-گریڈ 1 سے16 کے سرکاری ملازمین کیلئے تنخواہ میں 35 فیصد اضافہ
-گریڈ 17 سے 22 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 30 فیصد اضافہ
-سرکاری ملازمین کی کم از کم پنشن اب 12,000 روپے
-اسلام آباد کی حدود میں کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے
-EOBI کی پینشن کو 8,500 سے بڑھا کر 10,000 روپے کرنے کی تجویز
-عام انتخابات کیلئے 48 ارب روپے مختص
-ٹیٹرا پیک دودھ، پیکٹ کی دہی، ڈبے میں بند مکھن اور پنیر مہنگے
-ٹن پیک مچھلی، ڈبے میں بند مرغی کا گوشت اورانڈوں کے پیکٹ کی قیمت بھی بڑھ جائے گی
-برینڈڈ کپڑوںپر جی ایس ٹی 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کر دی گئی
-داسو پاور پروجیکٹ، مہمند ڈیم کیلئے رقم مختص
-پانی کی فراہمی کے لیے 100 ارب روپے کی رقم مختص
-تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کیلئے 82 ارب روپے مختص
-صحت کے شعبے کیلئے 26 ارب روپے مختص
-صحافیوں اور فنکاروں کیلئے ہیلتھ انشورنس کارڈ
-مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو 3.5 فیصد رہنے کا تخمینہ
-افراط زر کی شرح اندازاً 21 فیصد تک ہوگی
-ترسیلات زر کےذریعے غیرمنقولہ جائیداد خریدنے پر 2فیصد ٹیکس ختم
-بینک سے 50 ہزار نکالنے والے نان فائلر کیلئے ٹیکس میں اضافہ
-غیر ملکی ملازمین رکھنے والے امیر افراد پر ٹیکس میں اضافہ
-غیر ملکی کرنسی کو بیرون ملک جانے سے روکنے کیلئے ٹیکس شرح میں اضافہ
-بجٹ میں فری لانسرز کیلئے بھی ٹیکس سہولتوں کا اعلان
-زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کر دیا گیا
-کراچی کے K4 منصوبے کیلئے 17 ارب سے زائد کی رقم مختص
-سولر پینلز پر کسٹم ڈیوٹی میں استثنیٰ
-1300 سی سی سے زائد کی گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکسز کی حد بندی ختم
-ٹیلی کام سروسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کم
-بجٹ میں اعلیٰ تعلیم اور لیپ ٹاپ اسکیم کیلئے خطیر رقم مختص