وزارت خزانہ کا کہنا ہے پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے پرعزم ہے
اسلام آباد: پاکستان نے آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے اور بجٹ پراس کے اعتراضات دور کرنے کیلیے تیار ہو گیا ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کا ایک حیران کن بیان جاری ہوا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے پرعزم ہے،اتحادی حکومت نے پہلے ہی سیاسی قیمت پر کئی مشکل فیصلے کیے ہیں، معاملہ کے خوش اسلوبی سے حل کے لئے ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے۔
وزارت خزانہ کا نیا بیان وزیرخزانہ اسحق ڈار کے گذشتہ روز کے بیان سے ہٹ کر ہے جس میں انھوں نے کہا تھاکہ ہم ٹیکس استثنیٰ پر آئی ایم ایف کی ہدایت قبول نہیں کریں گے۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ وزیراعظم نے جمعے کی صبح اجلا س بلایا اور وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ بجٹ کے حوالے سے آئی ایم ایف کے اعتراضات دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ دو دن قبل پاکستان حکام اور آئی ایم ایف کے ایک دوسرے کے بارے میں بیانات سے لگ رہا تھا کہ پاکستان۔ آئی ایم ایف پروگرام اختتام کو پہنچ گیا ہے، وزیرخزانہ نے ہفتہ کے شروع میں آئی ایم ایف مشن کی چیف سے ملاقات کی تھی جو بغیر نتیجہ ختم ہو گئی۔
وزارت خزانہ کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ہمارے مفاد میں یہی بہتر ہے کہ نویں جائزہ کو مکمل کریں اور 1.2ارب ڈالر کی قسط حاصل کریں ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پوری اکنامک ٹیم اس بات پر متفق ہے، یاد رہے کہ وزیراعظم نے آئی ایم ایف پروگرام بچانے کے لئے کئی بار مداخلت کی ہے۔
گزشتہ روز انھوں نے آئی ایم ایف کے ایم ڈی سے ٹیلیفون پر بات کی اور انہیں نواں جائزہ مکمل کرنے کی درخواست کی ، دوسری طرف اسحاق ڈار نے جمعہ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں کہا کہ ہم نے نواں جائزہ مکمل کرنے کی پوری کوشش کی ، تاہم نئے بجٹ پر وزیراعظم اور ایم ڈی آئی ایم ایف میں سمجھوتہ نہ ہو سکا۔
آئی ایم ایف کی ریذیڈنٹ نمائندہ اشٹر پیریز روئز نے کہا تھا کہ پاکستان نے بجٹ میں ٹیکس بیس بڑھانے کا موقع گنوا دیا جبکہ نئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے برعکس اور نقصان دہ مثال ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایم این اے علی پرویز نے کہا ہے کہ ہمیں نواں جائزہ مکمل کرنے چاہئے کیونکہ آئی ایم ایف کے بغیر ہم اپنے مسائل حل نہیں کر سکتے، انھوں نے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کیلیے بجٹ میں ترامیم کا بھی مشورہ دیا۔
دریں اثناء وزارت خزانہ کی جانب سے جمعہ کویہاں جاری بیان کے مطابق وزارت خزانہ نے پاکستان میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ریزیڈنٹ نمائندہ کے بیان کاجائزہ لیاہے، پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے پرعزم ہے اوراس حوالہ سے ہماری بات چیت بھی جاری ہے چونکہ پریس میں بعض ایشوز اٹھائے گئے ہیں اسلیے ہماراخیال ہے کہ ان امور بارے اپنی پوزیشن کی وضاحت مناسب ہوگی۔
پریس میں جاری بیان میں مخصوص امورکے بارے میں وضاحت سے پہلے بات چیت کے سیاق وسباق کو دیکھنا ضروری ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ 9 واں جائزہ فروری 2023میں ہوا، حکومت پاکستان نے برق رفتاری سے تمام تکنیکی امورمکمل کرلیے تھے، واحد معاملہ بیرونی فنانسنگ سے متعلق تھا اور ہماراخیال ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اورآئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرکے درمیان 27 مئی کوہونے والی ٹیلی فونک بات چیت میں یہ مسئلہ بھی احسن طریقے سے حل ہو گیا تھا، اگرچہ نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ کبھی بھی 9 ویں جائزہ کا حصہ نہیں رہا۔
تاہم آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے وزیراعظم کے کمٹمنٹ کے مطابق وزارت خزنہ نے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ بجٹ کے اعدادوشمار بھی شئیرکیے جبکہ بجٹ کے دوران بھی ہمارا آئی ایم ایف مشن کے ساتھ مسلسل رابطہ رہا۔ وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق بجٹ میں جن شعبہ جات کیلیے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے وہ معیشت کے حقیقی شعبہ جات ہیں جونمو کے انجن کی حیثیت رکھتے ہیں، یہ شہریوں کوروزگار دلانے کا ایک پائیدارراستہ ہے، اس چھوٹ کا حجم بہت کم ہے۔
معاشرے کے معاشی طورپرکمزورطبقات کے لئے اقدامات صرف بی آئی ایس پی سے استفادہ کرنے والوں تک محدودنہیں ہے، اس بجٹ کاحجم 400 ارب سے 450 ارب کردیا گیا ہے، بیان میں کہاگیاہے کہ پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے پرعزم ہے اور9 ویں جائزہ کو مکمل کرنے میں گہری دلچسپی لے رہاہے، اتحادی حکومت نے پہلے ہی سیاسی قیمت پر کئی مشکل فیصلے کیے ہیں، معاملہ کے خوش اسلوبی سے حل کیلیے ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے۔