چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ اگر نیب ترامیم کیس پر فیصلہ نہ دے سکا تو یہ میرے لیے باعث شرمندگی ہو گا۔
نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر 47 ویں سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں ہوئی۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست گزار کے وکیل مخدوم علی خان سے استفسار کیا بتائیں کیا یہ بینچ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت نیب ترامیم کیس کی سماعت جاری رکھ سکتا ہے؟ جبکہ چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو ہدایت کی کہ اگلی سماعت پر اس نکتے پر تیاری کرکے آ جائیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا جسٹس منصور علی شاہ کے نکتے سے متفق ہوں، اس نکتے پر عدالت کی معاونت تیاری کے بعد کر سکوں گا، عدالت نیب ترامیم کے قابل سماعت ہونے کی حد تک سماعت جاری رکھ سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ کوئی اتنا منفرد اور خاص کیس ہے کہ قانون کو نظر انداز کرکے اسے سنیں؟ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل184/3 کے تحت یہ کیس قابل سماعت ہے تو سماعت چلے گی جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا معاونت کریں کہ کیسے یہی بینچ کیس سن سکتا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اگر عدالت نے نیب ترامیم کیس کی سماعت مکمل کرلی ہے تو پھر یہی بینچ ہو سکتا ہے بصورت دیگر قانونی طور پر یہ بینچ کیس کی سماعت نہیں کر سکتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اختلافِ رائے کے باوجود عدالتی فیصلہ اکثریتی ججز کا ہوتا ہے، اب تک 27 سماعتوں پر درخواست گزاروں اور 19 پر مخدوم علی خان نے دلائل دیے، یہ اتنا لمبا کیس نہیں تھا، کیس کے ناقابل سماعت ہونے پر مخدوم علی خان اچھے دلائل دے چکے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ سماعت سے بچنا کیوں چاہ رہے ہیں؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کیس سے بچ نہیں رہا، بطور وکیل عدالت کی معاونت میرا فرض ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیس کی 47 سماعتیں ہو چکی ہیں، پہلی سماعت پر بھی بنیادی حقوق سے متعلق سوال کیا تھا، نہیں بتایا گیا کہ نیب ترامیم میں کونسا بنیادی حق متاثر ہوا، بنیادی حقوق کے سوال پر درخواست گزار کے وکیل تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کو بتا چکے کہ حکومت نے نیب قانون میں متعدد ترامیم کیں، اپنی دانست میں عدالت کی بہترین معاونت کی، خواجہ حارث پچھلے 3 ماہ سے چیئرمین پی ٹی آئی کے بیشتر مقدمات کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ 2023 میں کی گئی ترامیم کا جائزہ ہم لے سکتے ہیں، عدالت کے سامنے 2022 کی نیب ترامیم چیلنج کی گئی تھیں، نئی نیب ترامیم اور اپنے تحریری جوابات جمع کرا دیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیس کو نمٹانا چاہتے ہیں کیونکہ بینچ کے ایک رکن کی ریٹائرمنٹ قریب ہے، یہ انتہائی اہم مقدمہ ہے، مجھے ہرصورت فیصلہ دینا ہو گا، اگر فیصلہ نہ دے سکا تو میرے لیے باعث شرمندگی ہو گا۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت 28 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ 28 اگست سے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ضروری نہیں کہ نیب ترامیم کی میرٹس پر ہی فیصلہ کریں، ممکن ہے کیس کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ آئے۔