انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی ) اسلام آباد نے بغاوت، دھمکانے اور اشتعال پھیلانے کی دفعات کے تحت تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمے میں سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری اور سابق رکن اسمبلی علی وزیر کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
ایمان مزاری اور علی وزیر کو اے ٹی سی جج ابوالحسنات کی عدالت میں پیش کیا گیا، سماعت شروع ہونے سے قبل ایمان مزاری اپنی والدہ شیریں مزاری سے مل کر آبدیدہ ہوگئیں۔
ایمان مزاری کی قانونی ٹیم میں زینب جنجوعہ اور مرزا عاصم بیگ شامل تھے، زینب جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ ایمان مزاری کا ایک دن کا ریمانڈ مل چکا، پولیس کو تاحال کچھ موصول نہیں ہوا، دو دن سے کچھ نہیں ملا، پولیس نے ایمان مزاری سے کوئی تفتیش نہیں کی، ایمان مزاری بھاگ نہیں رہیں، یہیں موجود ہیں، ایمان مزاری کا موبائل اور لیپ ٹاپ پولیس نے لے لیا۔
وکیل نے کہا کہ ایک ہی نوعیت کے 2 مقدمات ایمان مزاری کے خلاف درج ہیں، ایمان مزاری پر الزام ہے کہ ان کے بیانات سے ملک دشمن عناصر کو فائدہ ہوگا، ان کا پولیس کی حراست میں رہنا کوئی ضروری نہیں، ایمان مزاری کے ساتھ 900 سے زائد نامزد ملزمان ہیں، ملک میں وکالت کرنا بھی جرم ہے، ایمان مزاری وکیل ہیں۔
تحریر جاری ہے
ایمان مزاری کے وکلا نے ملزمہ کے جوڈیشل ریمانڈ کی استدعا کی، اے ٹی سی جج ابوالحسنات نے کہا کہ ایمان مزاری پر الزام کیا ہے؟ معلوم تو ہوں، پراسیکیوٹر راجا نوید نے کہا کہ اسلام آباد میں جلسہ ہوا، ریاست مخالف نعرے بازی اور تقاریر ہوئیں، ایمان مزاری پر 2022 میں ایسے ہی ریاست مخالف بیانات پر کیس درج ہو چکا۔
پراسیکیوٹر راجا نوید نے کہا کہ ایمان مزاری سے ثبوت برآمد کرنے ہیں، ایمان مزاری کا فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کروانا ہے، پراسیکیورٹر راجا نوید نے ایمان مزاری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ایمان مزاری کے ریمانڈ کی درخواست کی جا رہی ہے، ایمان مزاری اور علی وزیر کے ذریعے شریک ملزمان تک بھی پہنچنا ہے۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ سوال یہ ہے ابھی تک ایمان مزاری کے خلاف کوئی ثبوت کیوں نہیں لایاگیا ؟ فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ یا وائس میچنگ ٹیسٹ اب تک کیوں نہیں کروایا گیا؟ ایمان مزاری کی تقریر سوشل میڈیا پر موجود ہے، لیپ ٹاپ موبائل بھی پولیس کے پاس ہے، ایمان مزاری کو تحویل میں رکھ کر کیا ملےگا؟
وکیل نے کہا کہ ایمان مزاری کو دہشت گرد ثابت کرنا چاہتے ہیں، ایمان مزاری کو نائٹ سوٹ میں گرفتار کیا گیا، نائٹ سوٹ میں ہی عدالت لایا گیا، پولیس شاید بھول گئی کہ ان کے گھر میں بھی مائیں، بہنیں ہیں۔
ایمان مزاری کی قانونی ٹیم نے ملزمہ سے ملاقات کرنے کے لیے اے ٹی سی سے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا کہ ایمان مزاری کل بے ہوش ہوئیں، تھانے میں ملاقات نہیں کر پائے، ایمان مزاری اداروں کا احتساب چاہتی ہیں، جس پر انہیں دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ادارے کے سربراہ پر تنقید کرنے کا مطلب ادارے پر تنقید کرنا ہے، ایمان مزاری کی وکیل نے کہا کہ اداروں کے سربراہان جو قانون توڑتے ہیں، ان کا کورٹ مارشل کرنا کیا جرم ہے؟
دوران سماعت علی وزیر نے روسٹرم پر آکر کہا کہ جب جلسہ منعقد کیا تو نگران حکومت کی کال آئی، نگران حکومت نے کہا جلسہ اسلام آباد میں نہیں کر سکتے، ہم نے کہا ہم اپنی بات اسلام آباد تک پہنچانا چاہتے ہیں، ہمیں تین جگہیں نگران حکومت نے دیں، ہم نے کہا اسلام آباد میں ہی جلسہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جلسے میں کوئی غلط بات نہیں ہوئی، جلسے کے بعد نگران حکومت نے کہا جلسہ اختتام پذیر ہوگیا، دوران مکالمہ علی وزیر نے جج کو غلطی سے اسپیکر کہہ دیا جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ علی وزیر سابق رکن قومی اسمبلی رہ چکے، اس لیے اسپیکر کہہ دیا۔
اے ٹی سی جج ابوالحسنات نے کہا کہ کوئی بات نہیں، میں بھی سن رہا ہوں، آپ اسپیکر کہہ سکتے ہیں، ملک ہے تو ہم ہیں، اتنا پیارا ملک ہے ہمارا۔
پراسیکیوشن کی جانب سے ایمان مزاری اور علی وزیر کا 10 دن کا جسمانی ریمانڈ طلب کیا گیا، جس پر فریقین سے دلائل سننے کے بعد اے ٹی سی جج ابوالحسنات نے جسمانی ریمانڈ سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعد ازاں انسداد دہشت گردی عدالت نے محفوظ فیصلہ سنایا جس میں علی وزیر اور ایمان مزاری کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے دونوں کو پولیس کے حوالے کردیا۔
واضح رہے کہ علی وزیر کو ہفتے کے روز گرفتار کیا گیا تھا جب کہ ایمان مزاری کو اتوار کی صبح ان کے گھر سے گرفتار گیا تھا۔
ہفتے کے روز اسلام آباد کے ترنول پولیس اسٹیشن اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پولیس اسٹیشن میں دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئیں۔
یہ گرفتاریاں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے زیر اہتمام منعقدہ جلسے کے 2 دن بعد کی گئیں، جلسے سے پی ٹی ایم کے رکن علی وزیر اور ایمان مزاری دونوں نے خطاب کیا تھا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر زیر گردش جلسے کی ویڈیوز میں مقررین کو جبری گمشدگیوں کے معاملے پر فوجی اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے سنا گیا تھا۔
گزشتہ روز دونوں کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں پیش کیا گیا، جہاں ان کے خلاف درج دو مقدمات کی سماعت ہوئی تھی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ کے ڈیوٹی جج احتشام عالم نے بغیر اجازت جلسہ کرنے اور کار سرکار میں مداخلت پر تھانہ ترنول میں درج مقدمے میں ایمان مزاری کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 2 ستمبر کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے اسی مقدمے میں علی وزیر کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 22 اگست کو متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
دونوں ملزمان کے خلاف دوسری ایف آئی آر دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کی گئی جس پر عدالت نے علی وزیر اور ایمان مزاری کا ایک، ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو ہدایت کی تھی کہ وہ ملزمان کو انسدادِ دہشت گردی عدالت کے سامنے پیش کریں۔