سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کیس سے متعلق صدارتی ریفرنس پر متفقہ رائے سنا دی۔
سپریم کورٹ نے ذوالفقارعلی بھٹو صدارتی ریفرنس پررائے دیتے ہوئے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو صدارتی ریفرنس پر متفقہ رائے دے رہے ہیں، ہم حلف کے پابند ہیں کہ قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔
تاریخ کے کچھ فیصلے ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہ صورتحال سامنے آئی، ایڈوائزری دائرہ اختیار کے تحت صدارتی ریفرنس پر رائے دے سکتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں نئی پارٹی پوزیشن، ن لیگ 224 نشستوں کے ساتھ بڑی پارٹی بن گئی
سپریم کورٹ نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو کیس میں فیئر ٹرائل کے حق پر عمل نہیں کیا گیا، ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متفقہ رائے سناتے ہوئے کہا کہ بھٹو کے خلاف چلایا گیا ٹرائل آئین کے مطابق نہیں تھا، لاہور ہائیکورٹ کا ٹرائل بھی بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھا۔
چیف جسٹس فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجربینچ نے 4 مارچ کوصدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف ریفرنس 2011 میں دائر کیا گیا تھا،سپریم کورٹ میں مجموعی طور پر 2011 سے 2024تک بارہ سماعتیں ہوئیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9رکنی بینچ نے 12سال بعد دسمبر2023 میں سماعت شروع کی،7 سماعتوں کے بعد 4 مارچ کو 9 رکنی بینچ نے سماعت مکمل کر لی تھی۔
کارروائی شروع ہو چکی ہو تو جج کے مستعفی ہونے پر ختم نہیں ہوگی، سپریم کورٹ
ذوالفقارعلی بھٹو صدارتی ریفرنس 5سوالات پر مبنی تھا، کیا بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟ کیا بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ بطورعدالتی نظیر تمام کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟ مزید سوال تھا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیئے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟