ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہونے والے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 2021 سے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر تھے۔
14 دسمبر 1960 کو ایران کے شہر مشہد کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے والے ابراہیم رئيسی قدامت پسند سیاستدان، اسلامی قانون دان اور مصنف بھی تھے۔
ابراہیم رئیسی نے مذہبی تعلیمات کا ٓآغاز قُم کے مدرسے سے کیا اور 20 سال کی عمر میں ہی وہ ایران کے عدالتی نظام کا حصہ بن گئے۔
کرج شہر کے پراسیکیوٹر نامزد ہونے سے لے کر ہمادان اور پھر تہران کے پراسیکیوٹر جنرل بنے، وہاں سے جوڈیشل اتھارٹی کے نائب سربراہ اور پھر 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹڑ جنرل مقرر ہوئے۔
1988 میں ابراہیم رئیسی اُس پراسیکیوشن کمیٹی کا حصہ تھے جس نے ملک بھر میں بے شمار سیاسی قیدیوں کو سزائے موت سُنائی، 2017 کا صدارتی الیکشن وہ اعتدال پسند صدر حسن روحانی سے ہار گئے تاہم دوسری مرتبہ 2021 میں وہ 62.9 فیصد ووٹوں سے ایران کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے۔
اقتدار کے ایک سال بعد ہی ابراہیم رئیسی کی حکومت کو 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔
خارجہ پالیسی میں ابراہیم رئیسی علاقائی خودمختاری کے حامی مانے جاتے تھے، امریکی افواج کے انخلاء کے بعد انہوں نے افغانستان میں استحکام کی حمایت کی اور کہا کہ افغان سرحد کے اطراف داعش جیسے کسی بھی دہشت گرد گروپ کو پیر جمانے نہیں دیا جائے گا۔
ابراہیم رئیسی نے شام کے ساتھ اسٹریٹجک روابط مستحکم کیے، یمن میں سعودی ناکہ بندی کی شدید مخالفت کی، یوکرین جنگ میں روس کی حمایت کا اعلان کیا، 2023 کے دورہ چین میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے 20 معاہدے کیے، اور کچھ ہی دن بعد ابراہیم رئیسی کی قیادت میں ایران اور سعودی عرب نے 2016 سے منقطع سفارتی تعلقات بحال کر لیے۔
اُنہوں نے غزہ جنگ میں اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی اور کہا کہ امریکا کی مدد سے اسرائیل، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
پچھلے مہینے اپریل میں ہی صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا 3 روزہ دورہ کیا جس میں دونوں ملکوں نے باہمی تجارت 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا عہد کیا۔