ریپ کیسز کی سماعت کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کا بل منظور

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے انسداد ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹریل) بل 2021 کی منظوری دے دی جس کے تحت ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں تشکیل دی جائیں گی۔
قومی اسمبلی نے 10 جون کو بل منظور کیا تھا جسے بعد میں منظوری کے لیے سینیٹ بھیجا گیا تھا۔

صدر مملکت نے انسداد ریپ آرڈیننس کی باضابطہ منظوری دے دی
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین سید علی ظفر ہیں جبکہ دیگر اراکین میں اعظم نذیر تارڑ، فاروق حامد نائیک، کامران مرتضیٰ، میاں رضا ربانی، محمد اعظم خان سواتی، محمد ہمایوں مہمند، مصدق مسعود ملک، مصطفیٰ نواز کھوکھر، ثمینہ ممتاز زہری، سید مظفر حسین شاہ، سید شبلی فراز اور ولید اقبال شامل ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر کی زیر صدارت ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن کے اراکین نے خصوصی عدالتوں کی تشکیل کی اجازت دینے والی ایک شق پر تحفظات کا اظہار کیا تاہم اجلاس کے دوران اکثریت ووٹوں سے ان تحفظات کو مسترد کر دیا گیا۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ذیلی کمیٹی کے رکن مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ممکنہ خصوصی عدالتیں چار ماہ کے اندر کسی بھی مقدمے کا فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی۔
قانون میں دفعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مشتبہ شخص ہائی کورٹ سے رجوع کرتا ہے تو اسے چھ ماہ میں اس کیس کا فیصلہ کرنا ہوگا اور اس دوران ملزم کو ضمانت نہیں دی جا سکے گی۔

اینٹی ریپ آرڈیننس پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے کمیٹی تشکیل
اس بل کو منظوری کے لیے اب سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
اس سے قبل اجلاس کے دوران رکن قومی اسمبلی ملائیکا بخاری نے پینل کو بل میں ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے تجویز سے آگاہ کیا۔
پینل کو یہ بھی بتایا گیا کہ عدالتوں میں ریٹائرڈ ججوں کے بجائے حاضر سروس جج ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتوں کی تشکیل ضروری نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم قوانین کے خلاف نہیں ہیں بلکہ خصوصی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں