گوگل نے افغان حکومت کے ای میل اکاؤنٹس بلاک کر دیے

انٹرنیٹ کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل نے افغانستان کی حکومت کے متعدد ای میل اکاؤنٹس کو عارضی طور پر بلاک کر دیا ہے۔

برطانوی خبررساں ادارے ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق معاملے سے آگاہی رکھنے والے ایک شخص نے بتایا ہے کہ اکاؤنٹس لاک ڈاؤن کرنے کا یہ فیصلہ افغان حکومت کے سابق اہلکاروں اور ان کے عالمی شراکت داروں کے ڈیجیٹل روابط کی ٹریل کے بارے میں بڑھتے خوف کو کم کرنے کے لیے کیا گیا۔

امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کو گرانے اور طالبان کی جانب سے افغانستان پر قضہ کرنے کے بعد سے مختلف رپورٹس میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ نئے حکمرانوں کی جانب سے اپنے دشمنوں کو تلاش کرنے کے لیے بائیو میٹرک اور افغان پے رول ڈیٹا بیسز کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔

طالبان سے منسوب اکاؤنٹس کو آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں، یوٹیوب

گوگل کی کمپنی الفابیٹ نے ایک بیان میں افغان حکومت کے اکاؤنٹس لاک ڈاؤن کرنے کی تصدیق نہیں کی تاہم یہ کہا کہ کمپنی افغانستان میں صورتحال کی نگرانی کر رہی ہے اور ‘متعلقہ اکاؤنٹس کو محفوظ بنانے کے لیے عارضی اقدامات کیے گئے ہیں’۔
افغانستان کی سابق حکومت کے ایک ملازم نے بتایا کہ ‘طالبان سابق حکومتی عہدیداروں کے ای میل اکاؤنٹس حاصل کرنا چاہ رہے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘گزشتہ اہ کے اواخر میں طالبان نے ان سے کہا تھا کہ جس وزارت کے لیے وہ کام کر رہے تھے اس کا ڈیٹا سرور میں محفوظ کیا جائے’۔
سابق افغان حکومت کے ملازم کا کہنا تھا کہ ‘اگر میں ایسا کرتا ہوں تو وہ سابق وزارت کے سرکاری رابطوں ور ڈیٹا تک رسائی حاصل کرلیں گے’۔

انہوں نے بتایا کہ ‘انہوں نے طالبان کے حکم پر عمل نہیں کیا اور اب وہ روپوش ہیں’۔
رائٹرز کی جانب سے مذکورہ ملازم کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا نام اور وزارت ظاہر نہیں کی گئی۔
عوامی سطح پر دستیاب میل ایکسچینجر ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ تقریباً 2 درجن افغان حکومتی اداروں نے سرکاری ای میلز کو سنبھالنے کے لیے گوگل کے سرورز کا استعمال کیا تھا جن میں وزارت خزانہ، صنعت، ہائر ایجوکیشن اور مائنز کی وزارتی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں ریکارڈ کے مطابق افغانستان کے صدارتی پروٹوکول کے دفتر نے مقامی حکومتی اداروں کی طرح گوگل کا استعمال کیا تھا۔

فیس بک کی طالبان پر پابندی، ٹوئٹر فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار

سرکاری ڈیٹا بیس اور ای میلز سابق انتظامیہ کے ملازمین، سابق وزرا، سرکاری کنٹریکٹرز، قبائلی اتحادیوں اور غیر ملکی شراکت داروں کے بارے میں معلومات فراہم کر سکتی ہیں۔
انٹرنیٹ انٹیلی جنس فرم ڈومین ٹولز کے سیکیورٹی ریسرچر چاڈ اینڈرسن نے بتایا کہ ‘صرف سرکاری ملازمین کی گوگل شیٹ ہی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، یہ معلومات کا ایک خزانہ فراہم کر دے گی’۔
ای میلز کے تبادلوں کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی افغان حکومتی ایجنسیاں بشمول وزارت خارجہ اور صدارتی دفتر نے مائیکروسافٹ کارپوریشن کی ای میل سروسز بھی استعمال کرتی تھیں۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ مائیکروسافٹ نے ان اکاؤنٹس کو طالبان کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔
رائٹرز کی جانب سے مذکورہ معاملے پر جب مائیکروسافٹ سے رابطہ کیا گیا تو تبصرے سے انکار کردیا گیا۔
چاڈ اینڈرسن نے کہا کہ طالبان کی امریکی ساختہ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو کنٹرول کرنے کی کوشش قابل دید ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اس انفراسٹرکچر سے حاصل ہونے والی معلومات ایک گرتی ہوئی حکومت کے پرانے ہیلی کاپٹروں سے کہیں زیادہ قیمتی ہوسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں