افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد قائم ہونے والی طالبان کی نئی حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم سے متعلق نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کردیا گیا ۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ روز کابل میں طالبان کی عبوری حکومت کے ہائیر ایجوکیشن کے وزیر عبدالباقی حقانی کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس کے دوران افغانستان میں طالبات کے لیے نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔
یونیورسٹیوں کو صنف کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے گا : وزیر ہائیر ایجوکیشن عبدالباقی حقانی
پریس کانفرنس کے دوران ہائیر ایجوکیشن کے وزیر عبدالباقی حقانی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں یونیورسٹیوں کو صنف کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے گا ، ساتھ ہی طالبات کے لیے نیا ڈریس کوڈ بھی متعارف کروایا جائے گا۔
وزیر عبدالباقی حقانی کے مطابق، ان کی حکومت میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہوگی لیکن خواتین مردوں کے ساتھ تعلیم حاصل نہیں کرپائیں گی۔ ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
1996 سے2001 کےدوران خواتین کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کی اجازت نہیں تھی
خیال رہے کہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے قبل افغانستان میں طالبات کو ڈریس کوڈ کی پابندی نہیں کرنا پڑتی تھی جبکہ یونیورسٹیوں میں بھی مخلوط تعلیمی نظام کا سلسلہ جاری تھا جس کے تحت لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کیا کرتے تھے
لوگ مسلمان ہیں وہ اس تبدیلی کو قبول کریں گے :عبدالباقی حقانی
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالباقی حقانی نے کہا کہ ہمیں مخلوط نظام تعلیم ختم کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے، لوگ مسلمان ہیں وہ اس تبدیلی کو قبول کریں گے.
عبدالباقی کے مطابق، افغانستان میں اب بھی پہلے کی طرح لڑکے لڑکیوں کو پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں بھی علیحدہ علیحدہ پڑھایا جائے گا۔
وزیر ہائیر ایجوکیشن کا مزید کہنا تھا کہ درس گاہوں میں خواتین کو حجاب پہننے کی ضرورت ہوگی تاہم وزیر تلیم کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں خواتین کو چہرے ڈھانپنا لازمی ہوگا یا نہیں۔