شوگر انڈسٹری نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے ملز اور ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو سیل کردیا ہے جس سے گنے کے کاشتکاروں کو نقصان ہوگا کیونکہ اس کارروائی کے باعث متعدد ملز اگلی فصل کی ادائیگیاں کرنے میں ناکام رہیں گی۔
تاہم پنجاب کین کمشنر محمد زمان وٹو نے صنعت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملز اور ان کی ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو سیل نہیں کیا گیا بلکہ وہاں سے وزارت تحفظ خوراک کی مقرر کردہ قیمت پر چینی اٹھائی گئی ہے۔
انہوں نے ڈپٹی کمشنر کے ذریعے پنجاب شوگر سپلائی چین منیجمنٹ آرڈر 2021 کے تحت اس کارروائی کو جائز قرار دیا کیونکہ ملز مالکان مبینہ طور پر مقررہ سے زائد قیمتوں پر چینی فروخت کر رہے ہیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ پنجاب بھر میں شوگر ملز اور چینی ذخیرہ کرنے کے مقامات پر کارروائی اوپن مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں نیچے لانے کی کوششوں کے تحت کی گئی۔
پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اسکندر خان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت 140 فی کلو چینی درآمد کر رہی ہے تاکہ مارکیٹ میں 90 فی کلو پر فروخت کر سکے، لیکن مقامی صنعت سے 104 روپے فی کلو پر چینی خریدرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ‘حکومت کو مقامی سے زیادہ غیر ملکی کاشتکاروں کی زیادہ فکر ہے اور درآمد شدہ چینی پر بھاری سبسڈی دے رہی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت 2 لاکھ ٹن چینی درآمد کر رہی ہے جس میں سے ڈیڑھ لاکھ ٹن پنجاب میں 90 روپے فی کلو کے حساب سے تقسیم کی جائے گی۔