کراچی: امریکی ادارے کا کہنا ہے کہ پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چینی ترقیاتی فنانسنگ کا ایک بڑا حصہ ایسے قرضوں پر مشتمل ہے جو گرانٹس کے برعکس کمرشل ریٹ پر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکی انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ریسرچ لیب کی رپورٹ میں بیجنگ کے عالمی ترقیاتی پروگرام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا کہ سی پیک کے تحت چینی قرضے توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں بالترتیب 95.2 فیصد اور 73 فیصد ہیں۔
پاک ۔ امریکا تعلقات سے ‘سی پیک’ پر اثر نہیں پڑے گا، عبدالرزاق داؤد
چین نے 2000 اور 2017 کے درمیان پاکستان کے لیے 34.4 ارب ڈالر کے ترقیاتی فنانس کا وعدہ کیا۔
اسلام آباد، چین کے بیرون ملک ترقیاتی فنانسنگ کا 7واں سب سے بڑا وصول کنندہ ہے اور اس وقت 27.3 ارب ڈالر مالیت کے 71 منصوبے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 13.2 سال کی میچورٹی کے ساتھ اوسط قرض کے لیے شرح سود 3.76 فیصد ہے (جب سود کے ساتھ مکمل ادائیگی باقی ہے) اور 4.3 سال کی رعایتی مدت شامل ہے۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے چین کے تمام ترقیاتی فنانس کا تقریبا آدھا حصہ ’برآمد کنندہ کے کریڈٹ‘ کی شکل میں حاصل کیا ہے۔
امریکا بھی سی پیک کی مخالفت کررہا ہے، شیریں مزاری
چین کی جانب سے پاکستان کو 40 فیصد قرضے دینے کا حکم سرکاری کمپنیوں، سرکاری بینکوں، خصوصی مقاصد کی گاڑیوں، مشترکہ منصوبوں اور نجی شعبے کے اداروں کو دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ چینی قرضے حکومت کے کھاتے میں ظاہر نہیں کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق ’حکومت نے کچھ معاملات میں خود مختار ضمانتیں جاری کی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ اگر غیر سرکاری قرض دہندگان اپنی مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے مناسب آمدنی پیدا کرنے میں ناکام رہے تو قومی خزانہ قرضوں کی ادائیگی کرے گا‘۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’دوسری صورت میں حکومت نے قرض لینے والوں کو ایکویٹی پر ضمانت کی واپسی فراہم کی ہے، اس قسم کی گارنٹی مؤثر طریقے سے چین پر چھپے ہوئے قرض کی ایک شکل ہے، یہ مالی انتظامات حکومت کے لیے پرکشش ہیں کیونکہ انہیں عوامی قرضوں کے طور پر ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، عوامی قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 92.8 فیصد ہے۔