اسلام آباد:امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے دورہ پاکستان میں کہا کہ ہمیں بہت اچھے سے اندازہ ہے کہ ہر ملک اسوقت امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو چاہتا ہے، مجھے یقین ہے کہ عمران خان کے ساتھ یہ گفتگو بہت جلد ہوگی۔
امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نےدورہ پاکستان میں شاہ محمود قریشی اور مشیر قومی سلامتی معید یوسف سے ملاقات کی،ملاقات میں علاقائی امن اور افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح پر بھی مذاکرات کئے گئے۔امریکی نائب وزیر خارجہ نے اپنے دورہ پاکستان میں پاکستانی نیوز ایڈیٹرز سے ملاقات کی،اس موقع پر دنیا نیوز کی جانب سے سوال کیا گیا کہ ستمبر میں ری بپلکن کے 22 سینیٹرز نے بل پیش کیا اور پاکستان کو ٹارگٹ کیا اس پر کیا کہنا چاہیں گی جس پر وینڈی شرمین نے کہا کہ ہمیں سینکڑوں بل ملتے ہیں، ہزاروں افراد ان کے پیچھے ہیں، ہم پاکستان کے تحفطات سے آگاہ ہیں اور اس صورتحال کودیکھ رہے ہیں۔
دنیا نیوز کی طرف سے ایک اور سوال کیا گیا کہ امریکی صدر بائیڈن کے وزیر اعظم عمران خان سےرابطہ نہ کرنے کو کیا سمجھا جانا چاہیے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے امریکی نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ جلد با بدیر یہ رابطہ ہو جائے گا ، اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ اس سے کوئی اور مطلب نہیں لیا جانا چاہیئے۔
وینڈی شرمین نے مزید کہا کہ میں نہیں سمجھتی کہ اب تک ٹیلی فون پر گفتگو نہ ہونے کے حوالے سے زیادہ قیاس آرائیوں کی ضرورت ہے، جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں سیکنڑوں بل پیش کئے جاتے ہیں اور ان میں ہزاروں ترامیم کی تجاویز آتی ہیں، ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں اور پاکستان کے تحفظات اور تشویش کو سمجھتے ہیں۔
قبل ازیں امریکی نائب سیکرٹری آف اسٹیٹ وینڈی شرمن نے مشیر قومی سلامتی معید یوسف سے ملاقات کی، جس میں باہمی امور اور خطے میں بدلتی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملاقات میں معاشی تعاون، تجارت، خطے کی سیکورٹی صورتحال اور افغانستان پر تبادلہ خیال ہوا، جس میں دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی بہتری کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا۔ امریکی وفد نے افغانستان سے انخلا اور افغان مہاجرین کی مدد کرنے پر پاکستان کے کردار کو سراہا۔
مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو افغانستان کی نئی عبوری حکومت سے بات کرنے اور روابط قائم رکھنے کی ضرورت ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی خطے میں امن کے لیے خطرہ ہے۔