جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ادارے جب تک ان کا سہارا بنیں تو سب ٹھیک، نہ بنیں تو تنقید، تبدیلی کے نام پر پچھلا الیکشن لڑنے کے والے اب آزادی کے نعرے لگارہے ہیں،قوم نقالوں سے ہوشیار رہے۔
کراچی پریس کلب میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایک طرف قوم کا کرب مہنگائی، بھوک ہے، 70 سال کے سفر کو ساڑھے تین سالوں میں گرا دیا گیا، سعودی عرب بھی پاکستان سے ناراض ہے، چین نے مایوسی، ناراضگی کی وجہ سے سرمایہ کاری سے ہاتھ اٹھالیا، چین نے سی پیک منصوبہ شروع کردیا تھا، چین اپنی ہی انویسٹمنٹ سے دستبردار ہو گیا، خود اندازہ لگائیں ملک کی اندرونی معاشی پالیسیوں کا چین پرکتنا اثرپڑا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے راستے سے حکومت کو گرایا گیا، حکومت کو گرایا تو پاکستان کی ایلیٹ کلاس، ریٹائرڈ بیوروکریسی میں کھلبلی نظرآئی، ان گوشوں سے دفاعی، سیاسی قیادت پر کیوں پریشر آ رہا ہے، ورلڈ بینک کے دباؤ کا تسلسل ابھی ختم نہیں ہوا لہذا آفٹر شاکس آتے رہیں گے، ابھی جزوی، ضمنی قسم کی کامیابیاں ہیں آگے بڑھنا ہے، ہم نے ان کونظریاتی شکست دینی ہے۔ ہم نے مشورے دیئے تھے کہ اسمبلیوں سے حلف نہیں اٹھانا چاہیے، اس وقت ایوان میں چلے گئے بعد میں کہا گیا ہماری رائے ٹھیک تھی، جعلی حکمران اگراچھی کارکردگی دکھاتے تو شائد معاملے کو کور کر لیتے، ایک طرف ناکامی، نااہلی جمع ہوئی تو پھرعوام نے ہمارا ساتھ دیا، ہم نے ملک بھرمیں ملین مارچ کیے، ایک فضا بنی تواداروں نے بھی تسلیم کرلیا یہ نظام اب چلنے والا نہیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا اداروں سے مطالبہ تھا کہ آپ فریق نہ بنیں، فوج فریق نہیں ریاست کا ادارہ ہے، اللہ کا شکرادا کرتا ہوں ہم نے اپنی حدود سے تجاوزنہیں کیا، جب ادارہ آئینی دائرہ کے اندر جانا چاہتا ہے تو پھران کو جانور سے تعبیرکیا جاتا ہے، ان کو میر جعفر کے لفظ سے پکارا جاتا ہے، جب تک ان کا سہارا بنے تو پھر ٹھیک؟ مجھ سے انٹرویومیں پوچھا گیا آزادی کی بات تو میں کرتا تھا آج عمران کر رہا ہے، پچھلا الیکشن تبدیلی، نیا الیکشن آزادی کے نعرے سے لڑنا چاہتا ہے، نقالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے،دنیا کی معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے، پشتون علاقوں میں مذہب کی گہری جڑیں ہیں، اس لیے وہ صوبہ اس کو دیا گیا۔
امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) کا کہنا تھا کہ چند روزپہلے بیوروکریٹس بھی ملاقات میں موجود تھے، جوراستہ پچھلی حکومت وہی راستہ ہمیں بھی دکھایا گیا، وہی سبق ہمیں پڑھایا جارہا ہے، آئی ایم ایف شرائط کوقبول نہیں کریں گے تو دیوالیہ ہوجائیں گے، ہمیں ان ماہرین کی ضرورت ہے جوآئی ایم ایف کا دباؤ قبول نہ کریں، میں نے کہا کون ہے یہ بیوروکریٹ جو پُرانا سبق یاد کرا رہا ہے، ابھی تک تو حکومت ہی نہیں بنی، پرانے بیوروکریٹس کوتبدیل کرنا ہو گا، ہمارے پاس صلاحیت اور نیا فارمولا ہونا چاہیے، آئی ایم ایف کوئی آسمان سے نہیں اترا، نئے فارمولوں کی طرف جانا ہو گا، آئی ایم ایف کےجعلی حکومت کے ساتھ معاہدوں پرعملدرآمد کرنے کی ضرورت نہیں، ہمارے ساتھ آئی ایم ایف کو ازسرنومعاہدے کرنا ہوں گے، ساڑھے تین سال کے گند کوکہتے ہیں تین دن میں نہیں اٹھایا، جمعہ، جمعہ آٹھ دن میں پالیسیاں نہیں بنتیں، مہنگائی میں اونچ، نیچ ہوتی رہے گی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فیٹیف کے دباؤ پر قانون سازی کی گئی، آئی ایم ایف کے نمائندے کو پہلی دفعہ گورنراسٹیٹ بینک بنایا گیا، سب کچھ امریکا کی رہنمائی میں چل رہا تھا اورآج امریکا مخالف چورن بیچنے پرآگئے ہو، 2017میں تقریرمیں کہا تھا نائن الیون کے بعد امریکا کوجغرافیائی تقسیم چاہیے، سیاسی عدم استحکام کے لیے پناما اورمعاشی عدم استحکام کے لیے عمران خان آگیا۔
سابق وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کہتا ہے اگرفوج نہ ہوتی تو پاکستان تین حصوں میں تقسیم ہوجاتا، تین حصوں والی آگاہی کہاں سے آگئی، ریاست کا دفاع کرنے والے اداروں میں تقسیم میں لگے ہیں، اداروں سے اختلاف ہم نے بھی کیے لیکن حدود کے اندر کیے، کل کہا گیا اگر ڈاکہ پڑے تو چوکیدارنیوٹرل نہیں ہوسکتے، بھائی سن لو وہ چوکیدارحکومت نہیں ریاست کے چوکیدارہے، حکومت کی چوکیدارعوام ، سیاسی نظام اورجمہوریت ہے، اب توسمجھ آگئی ہے یہ کس کے سہارے چل رہے تھے، 19مئی اور21مئی کوہمارا جلسہ ہوگا۔
خط سے متعلق انہوں نے کہا کہ آج کا بیانیا جعلی خط ہے، قومی سلامتی کمیٹی، امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی کہا جھوٹ پروپیگنڈا ہے۔