ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام کا ہماری قوم اور ہماری نظر میں ایک خاص مقام ہے۔ ہم پاکستان کے ملٹری انفراسٹرکچر میں بہتری لانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، پاکستان کی سلامتی، استحکام اور خوشحالی کو ترکی جتنی اہمیت دیتے ہیں۔
پاکستان ملگیم پروجیکٹ کا تیسرا جہاز بدر کراچی شپ یارڈ میں تقریب کے ساتھ لانچ کیا گیا جس میں وزیر قومی دفاع حلوصی آقار، وزیر اعظم شہباز شریف، پاکستان کے دفاعی پیداوار کے وزیر محمد اسرار ترین اور دیگر حکام نے شرکت کی۔
ویڈیو میں ترک صدر نے دونوں ممالک کے درمیان تاریخی تعلقات کی ٹھوس مثال کی حیثیت رکھنے والے اس منصوبے کے پاکستان کے لیے مفید ہونے کی نیک تمناوں کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں پاکستان ملگیم پراجیکٹ کو دفاعی صنعت کے تجربے سے اپنے دوست اور برادر ملک پاکستان کے لیے موثر اور مفید ثابت ہونے کی نیک تمنا کرتا ہوں۔ یہ منصوبہ دونوں ممالک کے درمیان وسیع تعاون کا ایک اہم مثال ہے۔
ترک صدر نے پاکستان کو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ سٹریٹجک محل وقوع کا حامل ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کی خوشحالی، استحکام اور سیکورٹی کو اپنے ملک کی خوشحالی، استحکام اور سیکورٹی ہی سمجھتے ہیں اسلئے پاکستان کے فوجی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے اسے اپنے برادر ملک کا بھی حق سمجھتے ہیں ۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ اسی سوچ کے ساتھ ہم نے اس منصوبے کے لیے 4 عدد MİLGEM بحری جہاز کورنا کے دوران بھی ترک بحریہ نے بنانے کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ بلا تاخیر جہازوں کو پاکستان کے حوالے کیا جاسکے۔ بحری جہازوں میں سے دو پاکستان میں اور دو ترکی میں ایک ایک کرکے مکمل کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بابر جہاز کو گزشتہ سال استنبول میں پاکستان ملگیم پراجیکٹ کے ایک حصے کے طور پر لانچ کیا گیا تھا، جس میں پاکستانی صدر عارف علوی نے شرکت کی تھی جبکہ آج وہ بحری جہاز بدر کے سمندر میں اتارے جانے پر خوشی محسوس کررہے ہیں۔ منصوبے کا ایک اور بحری جہاز ” خیبر” ستمبر میں استنبول میں سمندر میں اتارا جائے گا۔
ترک صدر نے کہا کہ ان تمام بحری جہازوں کی پیداواری عمل، جو ہمارے ملک کے تیار کردہ جدید ترین ہتھیاروں اور سینسر سسٹم سے لیس ہیں، منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان 4 جہازوں کی ترسیل، جو فضائی دفاع سے لے کر آبدوزوں کا دفاع اور ہر قسم کے فوجی فرائض انجام دے سکتے ہیں ان چاروں بحری جہازوں کو اگست 2023 سےشروع کرتے ہوئے ہر 6 ماہ بعد پاکستان کے حوالے کردیا جائے گا۔