25 مئی، کو اسلام آباد میں عمران نیازی کے فاشزم کی یلغار المعروف حقیقی آزادی مارچ کے دوران جو خوفناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ وہ شاید اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھے گئے۔ لاقانونیت، گھیرائو جلائو اور توڑ پھوڑ کے ایسے دلخراش واقعات کے بعد ہر پاکستانی اس تشویش میں مبتلا ہے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔
پاکستان جو تاریخی معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، جس کے ذمہ دار عمران خان اور اسکے سرپرست ہیں، اس تباہی سے پاکستان کو نکالنے اور علانیہ دیوالیہ پن سے اسے بچانے کی بجائے( جبکہ حقیقی معنوں میں پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے) عمران خان اور اسکے سپورٹرز اس سنگین صورتِ حال کو مزید تباہ کن بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اپنی حکومت کے پونے چار سال میں عمران حکومت نے ’’ بُری کارکردگی ‘‘ کے ریکارڈ قائم کیے۔
گزشتہ حکومتوں نے 71 برسوں میں تقریباََ 25ہزار ارب روپیہ قرضہ لیا جبکہ عمران خان نے صرف پونے چار سال میں 20 ہزار ارب کا اس میں اضافہ کیا۔ سابقہ حکومتوں نے اس قرضے سے ایٹمی پروگرام، میزائل پروگرام، موٹروے اور بجلی کے کارخانے لگائے لیکن تاریخ میں سب سے زیادہ قرضہ لینے والے کے کریڈٹ پر کوئی ایک بھی قابلِ ذکر منصوبہ نہیں ہے۔
اس نے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا جو وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ بیرونِ ملک سے لوگ نوکریاں کرنے کے لیے پاکستان آئیں گے۔ وہ اس طرح نبھایا کہ لاکھوں لوگوں کو مزید بیروزگار کردیا اور جن کے پاس سر چھپانے کے لیے کرائے کی چھتیں تھیں، اس سے بھی ان کو محروم کردیا۔ ان پر تاریخی مہنگائی مسلط کردی البتہ بیرونِ ملک سے شہزاد اکبر، شہباز گِل، زلفی بخاری اور ان جیسے کئی ’’ امپورٹڈ‘‘ نا بغہ روزگاروں کو اس قوم کے خزانے پر مسلط کردیا۔
کرپشن ختم کرنے کے نعرے کو اس طرح عملی جامہ پہنایا کہ انٹر نیشنل ٹرانسپیرنسی کے مطابق پاکستان میں 23درجے کرپشن میں اضافہ ہوگیا اور اس کا انڈکس 117 سے بڑھ کر 140کر دیا۔
پنجاب میں ایک نا اہل اور گمنام شخص عثمان بزدار کو اپنے سر پرستوں اور بہی خواہوں کے مشوروں کے خلاف صرف اس لیے وزیرِ اعلیٰ بنا دیا کہ اپنی اہلیہ کی قریبی دوست فرح گوگی کو پنجاب کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا جا سکے۔ جس نے عثمان بزدار کے ساتھ ملکر ملکی خزانے کو بے دریغ لوٹا۔
انتظامی امور میں تباہی کا یہ عالم تھا کہ سرکاری ملازمین سے پیسے لے کر ہزاروں کی تعداد میں تبادلے کیے گئے۔ جس سے ملک کا انتظامی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا۔
گندم، چینی، گیس، ادویات، فارن فنڈنگ، بلین ٹری، مالم جبہ اور پشاور میٹرو جیسے منصوبوں کی خوفناک کرپشن کو دبا کر نہ صرف قومی خزانے کو لوٹا بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں موت کی چکیوں میں قیدرکھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو تباہ و برباد کردیا۔
سعودی عرب اور چین سے تعلقات خراب کیے، سی پیک کو تقریباََ روک دیا۔ ملک میں جابرانہ قوانین کے تحت پریس اور میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کردیں اور تمام قابلِ ذکر صحافیوں کو روزگار سے محروم کردیا۔ اس کی ذاتی ایما نداری جس کا بہت زیادہ پرچار کیا گیا تھا، یوں سامنے آئی کہ توشہ خانہ سے معمولی قیمت پر چیزیں خرید کر انہیں بازار میں مہنگے داموں فروخت کردیا اور پوچھنے پر شرمندہ ہونے کی بجائے یہ کہہ دیا کہ ’’میرے تحفے میری مرضی‘‘ اور جب اسے آئینی طریقے سے معزول کیا گیا تو اسے ماننے سے انکار کرتے ہوئے مرکز اور پنجاب میں وہ آئین شکنی کی جسکی مثال نہیں ملتی۔
لیون ٹراٹسکی اپنی کتاب ’’ فاشزم کیا ہے اور اس سے کیسے لڑا جائے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ فاشسٹ کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ انتہائی جھوٹا ہوتا ہے اور اپنی مرضی کے علاوہ کسی قانون کو نہیں مانتا۔ اور اقتدار کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتا ہے‘‘ جیسے عمران خان نے اچانک امریکی سازش اور مدینے کی ریاست کا ذکر کرنا شروع کردیا۔ اب وہ چاہتا ہے کہ آئین، انتظامیہ، فوج، الیکشن کمیشن غرض ہر ادارہ اسکے تابع ہو اور انتخابات اس کی مرضی کے مطابق ہوں۔
اسکی تقریر کے دوران اسکا آئین شکن ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کہتا ہے ’’ خان صاحب مذہبی ٹچ بھی دیں‘‘ یہ مذہب کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی ایک مکروہ کوشش ہے۔ شکر ہے عوام نے عمران خان کے فاشزم کو حکومت اور اپوزیشن دونوں حیثیتوں میں دیکھ لیا ہے اور اس کے لانگ مارچ کو ناکام کرکے ثابت کر دیا ہے کہ عمران خان کے فاشزم کی اس یلغار کے سامنے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔