تحریر: کنول زہرا
ماہ جون سکھ نسل کشی کی دل گرفتہ یاد دلاتا ہے, اس ماہ کی آٹھ کو بھارت میں آپریشن بلیو اسٹار کے نام پر سکھ برداری پر قیامت ڈھائی گئی تھی
بھارتی فوج سکھوں کے گرو ارجن دیو کے یوم شہادت کو کاروائی کے لئے منتخب بھارتی جنرل کلدیپ سنگھ برار کی قیادت میں گولڈن ٹمپل پر دھاوا بولا تھا, 1984 کے ماہ جون میں سکھوں کی عبادت گاہ کا تقدس فوجی جوتوں, بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کے ذریعے سے پامال کیا گیا, دی سکھ اسٹرگل نامی کتاب میں، رام نارائن کمار اور جارج سیبرر لکھتے ہیں، “ہندوستانی فوج نے ہر اس سکھ کو مار ڈالا جو مندر کے احاطے کے اندر پایا جاتا تھا۔ انہیں کمروں سے باہر نکالا گیا، سکھ عبادت کے اطراف اور راہداریوں میں ہاتھ پاؤں باندھ کر لایا گیا اور گولیؤں سے بھؤن ڈالا, بھارتی فوج نے زائرین میں شامل بوڑھے مرد، عورتیں اور بچؤں کو دو دن تک بغیر کسی خوراک، پانی یا بجلی کے کمروں میں بند کر دیا, جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی.
ایک اندازے کے مطابق “10,000 لوگ مندر کے اندر پھنسے ہوئے تھے، جو ہندوستانی فوجیوں کے تشدد سے بچ نہیں سکے تھے۔
ریجینا یونیورسٹی آف گریجویٹ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کی فیکلٹی کے محقق این اے کے گل
‘The Punjab Problem: A Case Study On The Rise of Sikh Nationalist Identity in India’ کے عنوان سے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ “70,000 ہندوستانی فوج نے چند سکھوں کو سنبھالنے کے لیے گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا۔
بھارتی حکومت نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ آپریشن بلیو سٹار 5 جون 1984 کو شروع کیا گیا تھا بلکہ اس بربریت کے شواہد اس سے قبل کے ہیں, دو جون کو ایک شخص گرومیج سنگھ کچھ لوگوں کے ساتھ گولڈن ٹیمپل گیا, اس نے دیکھا گولڈن ٹیمپل گولیوں سے چھنی تھا, مصنفین،کرپال سنگھ اور گیانی سنگھ، آپریشن بلیو اسٹار کے عینی شاہد تھے،
ان کا کہنا ہے کہ
1984
کے نومبر میں، بیانت سنگھ اور ستونت سنگھ نامی سکھ وزیر اعظم اندرا گاندھی کی رہائش گاہ پر تعینات پولیس اہلکاروں کو قتل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد دارالحکومت اور دیگر شہروں میں ہندو فسادات پھوٹ پڑے جس میں اندرا گاندھی کے حامیوں کے
ہاتھوں 15000 سے زائد سکھوں کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا، جب کہ پولیس خاموشی سے ہندوؤں کو سکھوں کے قتل عام کے لیے آزادانہ طور پر دیکھتی رہی۔ ۔آپریشن بلیو سٹار اور سکھوں کی نسل کشی کے بعد سکھوں کی جدوجہد آزادی جاری رہی جسے آج بھی بھارتی حکومت کچلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
دوران آپریشن رپورٹرز اور قلم کاروں کو محصور کیا گیا
آپریشن بلیو اسٹار کے دوران ہونے والی اموات کی کل تعداد کا سب سے زیادہ قابل اعتماد تخمینہ 5,000 سے 7,000 کے درمیان ہے جبکہ بھارتی حکومت
اس قتل عام کو 800-1000 کے درمیان بتاتی ہے,
اندرجیت سنگھ جاجی نے اپنی کتاب ‘پالیٹکس آف جینوسائیڈ: پنجاب، 1984-1998′ میں آپریشن بلیو اسٹار میں ہونے والے قتل عام کی مجموعی تعداد 20,000 کے لگ بھگ بتائی ہے جو دس سالوں پر مشتمل ہے
آپریشن بلیو اسٹار‘‘ کی بربریت صرف گولڈن ٹمپل تک محدود نہیں تھی بلکہ ہندوستانی مسلح افواج نے مشرقی پنجاب کے 40 تاریخی گوردواروں پر بیک وقت حملہ کیا تھا, جب دوسری ریاستوں میں سکھوں کو علم ہوا تو وہ اپنوں کی دادرسی کے لئے پنجاب کی جانب آئے تو بہت سوں کو راستے میں ہی مار دیا یا گرفتار کرلیا, پورے امرتسر شہر کو سیل کر کے جلا دیا گیا۔ کئی سیاحوں کو یا تو قتل کیا گیا یا گرفتار کر لیا گیا۔ ہندو ہجوم نے سکھوں کی دکانوں کو لوٹ لیا اور ان کے گھروں کو نذر آتش کر دیا۔ زیادہ تر واقعات میں سکھ خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور ان کی برادری کے کچھ افراد کو بھی جلا دیا گیا۔آپریشن کی ایک اور المناک جہت یہ ہے کہ سکھوں کے تاریخی نمونے بشمول گرووں کے لکھے ہوئے تمام لٹریچر کو بھی ہندوستانی فوج نے نذر آتش کیا۔
اسکالر ڈاکٹر سنگت سنگھ اپنی کتاب دی سکھز ان ہسٹری میں لکھتے ہیں، ”بھارتی حکومت نے 10 لاکھ سے 12 لاکھ سکھوں کو قتل کیا ہے۔ 1947 سے اب تک بھارتی حکومت نے 50,000 عیسائیوں اور 100,000 مسلمانوں کو بھی قتل کر چکی ہے۔ ان کے مطابق اس ریاستی دہشت گردی کو روکنے کا واحد طریقہ خالصتان ریاست بنانا ہے جہاں سکھ اور دیگر مذہبی لوگ آزادی سے رہ سکیں ۔
بھارتی حکام سکھ برداری کو ہندو شناخت کے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی ہے۔ 1948 میں، ہندوستانی مقننہ نے اپنے مسودہ آئین کے آرٹیکل 25(2) میں سکھوں کو ہندو کہا, اس آرٹیکل کو سکھ برادری نہیں مانتی ہے, اس لئے لئے سکھوں کے کسی بھی راہ نما نے اس مسودے پر دستخط نہیں کیے, جو بھارتی حکومت کو گراں گزرا
مذہبی آزادی ہر قوم و نسل کا بنیادی حق ہے۔ کسی بھی قوم کو اسے کے حقوق سے محروم کرنا سراسر ناانصافی ہے
جیسا کہ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ بھارت میں مذہبی ظلم و ستم بلند ترین سطح پر ہے، بھارتی حکمران جماعت سکھ اقلیت کے گھروں پر حملوں میں ملوث رہی ہے اور یہ درندگی ماضی کی طرح آج بھی جاری ہے, مگر بدقسمتی سے بین الاقوامی انسانی حقوق کے پلیٹ فارمز اسے یکسر انداز کیے ہوئے ہیں
آپریشن بلیو سٹار’ کو 37 سال گزر چکے ہیں، جون 1984 میں بھارتی سرکار کی جانب سے پولیس نے ہجوم کو جو چاہو اور جیسے چاہو کرو کی کھلی چھوٹ دی تھی, جس کے بعد سکھ برداری کی نسل کشی کے واقعات رونما ہوئے, یہ قابل مذمت واقعات سراسر ریاستی دہشتگردی تھا کیونکہ بندوستانی سرکار سکھوں کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال کر رہی تھی,
کہا جاتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم الیکشن میں مکمل کامیابی کی خواہاں تھیں لہذا انہوں نے یہ سفاکی رونما کرائی مگر نومبر 1984 میں وہ اپنے ہی محافظوں کی گولیوں کا شکار ہوئیں
انتہائی تاخیر کے ساتھ حکومت ہند نے
سن دوہزار میں 1984 کے فسادات کی رپورٹ پیش کی, جس کے مطابق, جیسا بتا جاتا ہے اتنی بڑی تعداد میں سکھوں کا قتل نہیں ہوا تھا۔
بھارت اپنے آپ کو انسان دوست سیکولر ملک کہتا ہے جبکہ
1984 کا واقعہ بھارت کے ہندوستان ہونے کا کھلا ثبوت ہے,
ہندوستانی حکومت اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے, جس کا ایک اور ثبوت شہری ترمیمی بل ہے, جس میں مسلم اقلیت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بھارتی جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس قسم کی قانون سازیاں اور اقدامات ہوئے جو مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے منافی ہیں, نومبر 2020 میں ہونے والی کسان احتجاج کو ہند
سرکار نے “خالصانی” ایجنڈا
قرار دیا جبکہ وہ لوگ اپنا بنیادی حق مانگنے سٹرکوں پر آئے تھے، جن پر 8 فروری
2021
کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے شدید تنقید کی اور ہندوستان پر ہونے والی بین الاقوامی تنقید کو “غیر ملکی تباہ کن نظریہ” قرار دیا.
26
جنوری 2021 کو کسانوں کے پرامن احتجاج کے دوران بھارتی حکام نے انٹرنیٹ معطل کیا, تقریبا بارہ سو سے زائد ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاونٹس کو بین کیا اور بہت سے صحافیوں کو تحویل میں لیا,
مظاہرین کو احتجاج کے جمہوری حق سے روکنے کے لئے روکاٹیں لگائی گئیں, سو سے زائد کسان لاپتہ ہوئے, اس دوران خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بھی رونما ہوئے, بھارتی حکومت کے ان اقدامات نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی قلعی کھول دی, ہندوستان میں حکمران کی آمریت کا یہ حال ہے کہ جو بھی مودی حکومت کے برعکس سوچتا ہے اسے وطن دشمن قرار دیا جاتا ہے,
ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا وہ اس بات کی مکمل غمازی کرتا ہے کہ وہاں کی حکمران جماعت (بی جے پی) اقلیتوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ہر روز تعصب کی زبان بول رہی ہے
حالیہ مہینوں میں ہندوستانی میڈیا کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ سکھ علیحدگی پسندوں کے پیچھے پاکستان ہے,
کئی دہائیوں کے ریاستی جبر کے بعد لندن میں مقیم سکھ برداری نے سکھس فار جسٹس (SFJ) کے نام سے تنظیم بنالی ہے, جس کے 12 ملین رکن ہیں,
ایس ایف جے ہندوستان سے الگ ہونے کا کامیاب ریفرنڈم بھی کراچکی ہے, اگر سکھ برداری کی کوشش کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ کامیابی مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد کے لئے سہل ثابت ہوگی, بھارت کے 5,اگست 2020. کے اقدام کو سکھ برداری کی تنظیموں نے قابل مذمت قرار دیا تھا
بھارتی مخالفت کے باوجود، سکھ برادری عالمی برادری کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ وہ اقلیتوں کے خلاف بھارتی ریاستی سرپرستی میں نسل کشی کی مہموں کے سب سے بڑے متاثرین میں سے ایک ہیں۔
حالیہ دنوں میں، نیو جرسی کی سینیٹ نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھ برادری کے قتل عام کو “نسل کشی” قرار دیا گیا ہے
پاکستان کے آئین آرٹیکل 36 کے مطابق ریاست اقلیتوں کے قانونی حقوق اور مفادات کا تحفظ کی پابند ہے جس کی مکمل کرتار پور راہداری ہے, جس کے بنانے اور کھولنے کا مقصد مذہبی یگانیت, آزادی اور احترام ہے, کرتار پور راہداری کھلتے ہی دنیا بھر سے ہزاروں سکھ یاتریوں نے اس کا دورہ کیا، جن میں بڑی اکثریت ہندوستان کے پنجاب سے تھی۔ پاکستان کی جانب سے یہ اقدام مذہب دوست تھا جسے ہندوستان نے تحریک خالصان سے جوڑا
پاکستان میں سکھ برادری کے بہت سے مذہبی مقامات ہیں جن میں گوردوارہ پنجہ صاحب، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی، گوردوارہ نانک صاحب اور دیگر شامل ہیں۔ جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کرتے ہیں, جبکہ
ہندوستان میں مذہبی فسادات خوفناک حد تک عام ہوچکے ہیں۔ جس میں 2002 کا گجرات واقعہ,
,1992 کا ممبئی سانحہ جبکہ 2020 اور 2021
میں مسلمانوں اور سکھ کسانوں کے ساتھ بہیمانہ تشدد قابل غور ہیں, بھارت میں 1998 میں کرسچن
برداری پر بھی تشدد ہوچکا ہے
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ ہندوستانی حکومت کی ذمے داری ہے کہ مذہبی اور دیگر اقلیتی آبادیوں کی حفاظت کرئے اور ان کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف مکمل اور منصفانہ قانونی کارروائی کرئے, مگر بھارت حکومت کے اقدامات اس کے بر عکس ہیں, اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو اس جانب توجہ مرکوز کرنی چاہیے.
بین الاقوامی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیروں, فلسطنیوں اور سکھوں کی اسی طرح حمایت کرے جیسے کہ انہوں نے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے معاملے میں کی تھی.