نیب نے عمران خان حکومت میں بیرسٹر شہزاد اکبر کی زیر قیادت قائم کردہ اثاثہ ریکوری یونٹ (اے آر یو) کیخلاف مالی فوائد کی خاطر اختیارات کے غلط استعمال اور برطانیہ سے موصول ہونے والی جرمانے کی رقم کے معاملے میں اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور ریکارڈ کو غیر قانونی انداز سے سیل کرنے کے الزامات کے تحت تحقیقات شروع کردی ہیں۔
نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ ادارے نے باضابطہ طور پر وزیراعظم آفس سے رجوع کر لیا ہے اور شہزاد اکبر کے دفتر سے تمام متعلقہ ریکارڈ کی نقول فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
وزیراعظم آفس کو بھیجے گئے خط، جس کی نقل دی نیوز کو نیب کے ایک ذریعے سے موصول ہوئی ہے، کے مطابق ’’نوٹ ٹوُ دی پرائم منسٹر‘‘ کی نقل فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے جو دسمبر 2019 میں بھیجی گئی تھی جس میں دو پاکستانی شہریوں احمد اور مبشرا کے جرائم سے حاصل ہونے والی رقم سرنڈر کرکے برطانیہ سے پاکستان بھیجنے کی بات کی گئی تھی۔
نیب کی جانب سے جو تفصیلات مانگی گئی ہیں ان میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ساتھ مذکورہ بالا دو پاکستانی شہریوں کے حوالے سے کی گئی مکمل خط و کتابت، ان افراد کے غیر قانونی انداز سے کمائی گئی رقم اور اس رقم کی پاکستان منتقلی کی تفصیلات شامل ہیں۔
اے آر یو کی جانب سے رازداری کا معاہدہ بھی نیب نے مانگ لیا ہے۔ برطانوی حکومت کی جانب سے فنڈز کی منتقلی کی بعد اے آر یو کی جانب سے جاری کی جانے والی کوئی بھی پریس ریلیز کے حوالے سے بھی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔
شہباز شریف نے رواں سال جون میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جسے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ کی جانب سے ایک امیر ترین شخصیت سے اربوں روپے لے کر 50 ارب روپے کی لانڈرنگ کرکے اس رقم کو قانونی بنانے کے الزام کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
برطانیہ نے اس رقم کی نشاندہی کرکے پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت میں پاکستان کو واپس کی تھی۔
کابینہ کے اجلاس کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے مسٹر خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر منی لانڈرنگ کے ایک کیس میں مذکورہ نجی کمپنی کو بچانے کے عوض 5 ارب روپے اور سیکڑوں کنال زمین لینے کا الزام عائد کیا تھا۔
حکومت نے الزام عائد کیا کہ نجی کمپنی نے غیر قانونی طور پر برطانیہ میں مقیم پاکستانی شہری کو 50 ارب روپے منتقل کیے جسے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پکڑ لیا، نتیجتاً عمران خان کی حکومت کو اس منی لانڈرنگ سے آگاہ کیا گیا۔
رانا ثناء اللہ نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کی ہدایت پر شہزاد اکبر نے اس پورے معاملے کو سیٹل کیا اور سرکاری خزانے کی ملکیت 50 ارب روپے نجی کمپنی کی واجبات کسی دوسرے معاملے میں ایڈجسٹ کر دیے۔
وزیر داخلہ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ عمران خان نے 3 دسمبر 2019 کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں اس ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے منظوری لی اور کابینہ ارکان کو اس معاہدے کو پڑھنے بھی نہیں دیا گیا حالانکہ کچھ ارکان نے اس حوالے سے وضاحت بھی مانگی تھی۔