سابق صدر سپریم کورٹ بار اور ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کی سپریم کورٹ سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا

سابق صدر سپریم کورٹ بار اور ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کردی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکرپنجاب اسمبلی کی رولنگ کیخلاف پرویزالہٰی کی درخواست پرسماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سینئر وکیل اور سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پر آگئے اور کہا بحران گہرے ہوتےجارہےہیں، پوراسسٹم داؤپر لگا ہواہے، سسٹم کا حصہ عدلیہ اور پارلیمان بھی ہیں، سماعت سے قبل بار کے سابق صدورکوسناجائے۔

لطیف آفریدی نے عدالت سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا دستیاب ججزپر مشتمل فل کورٹ تشکیل دےکردرخواستوں کویکجا کیاجائے۔

صدرسپریم کورٹ باراحسن بھون کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا حصہ ہیں اور اسکےتقدس،احترام کےمحافظ ہیں، جس پرچیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ وکلاپہلے ہماری معاونت کریں اتنی عجلت کیا ہے، ہم یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔

چیف جسٹس نے کہا 10سابق صدور کے کہنے پر فیصلہ نہیں کر سکتے،دوسری طرف کو سننا بھی ضروری ہے، آپ کے مشکور ہیں کہ معاملہ ہمارے سامنے رکھا، آپ سب کا بہت احترام ہے۔

جسٹس عطا بندیال نے لطیف آفریدی سے مکالمے میں کہا یہ کیس ہماری آرٹیکل63اے کی رائے کی بنیاد پرہے ،ہم فریقین کو سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے وکیل کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی درخواست جمع کر آئی ہے جیسےاعتراضات عائد کر کے واپس کیاگیا ، عدالت اگر حکم دے کہ ہماری درخواست کو نمبر لگا دیا جائے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ تشریف رکھیں امید ہے آپ کی سیٹ ابھی بھی موجودہوگی، اروق ایچ نائیک نے مسکراکرچیف جسٹس سے مکالمے میں کہا میں نے بہت سیٹیں دیکھی ہیں۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی سوالات کے تسلی بخش جواب ملےتوضرور بات بنےگی، سابق صدور کے دباؤ میں آکر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔

جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں ووٹ بھی دیا ہے، کرسی آنی جانی چیز ہے انسان کو اپنے پاؤں پر پکا رہنا چاہیے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسی باتیں کرنے والے کی کرسی اکثر چلی جایاکرتی ہے، مناسب ہوگاآرٹیکل 63اےکی تشریح پرنظرثانی درخواست پہلے سن لی جائے۔

ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر روسٹرم پر آئے اور فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا وسیع ملکی مفاد میں اور انصاف کے تقاضوں کو مد منظر رکھاجائے ، عدالت فل کورٹ تشکیل دے اور 63اےنظرثانی کیس کی سماعت کرے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پہلے فیصلہ دینےوالےججزہی کیس سن رہےہیں جس سےاضطراب پایاجاتاہے،اہم آئینی معاملہ ہے،ابہامات دور کرنے کیلئےفل کورٹ بنانے کاصحیح وقت ہے، درست فیصلے پر پہنچنے کے لیے عدالت کی معاونت کروں گا۔

وکیل ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگاعدالت 1843کی درخواست سن رہے ہیں ، جس سوال پرعدالت نے کیس سماعت کیلئےمقرر کیا وہ ابھی سامنےنہیں آیا، جس سوال پر سماعت ہورہی وہ بتانامیراکام نہیں عدالت تعین کرے،معاملہ شائد پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات کا ہے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ قانونی سوال ہےپارلیمنٹری پارٹی اورپارٹی ہیڈ کامؤقف مختلف ہوتوکیاہو گا؟ جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا
میری نظر میں کوئی ابہام موجودنہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے عرفان قادر کو تنبیہ کی محترم آپ بات کرنے دیں، چیف جسٹس نے وکیل عرفان قادر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا عرفان قادر صاحب لگتا ہے کہ آپ کو سننے میں دشواری ہو رہی ہے، آئندہ آپ نے عدالت کی بات میں ٹوکا توآپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں گے۔

وکیل عرفان قادر نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا ٓپ جتنا بھی ڈانٹیں میں چپ رہوں گا، آئین میں انسان کی عزت کا ذکر ہے نہ کہ جج کی عزت کا، آئین کاآرٹیکل14شخصی وقاراورجج کے وقارکی بات کرتا ہے، جج کو حق ہے کہ وہ وکیل کو ڈانٹے۔

جسٹس اعجاز الحسن کا کہنا تھا کہ آپ سے احترام سے بات کر رہے ہیں، آپ آرٹیکل63 اے کو ہمارے ساتھ پڑھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں