عدالتی معاون منیر اے ملک اور مخدوم علی خان نے چیئرمین پی ٹی آئی پر توہین عدالت کی کارروائی کی مخالفت کردی۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کورٹ میں ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری سےمتعلق بیان پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس ہائیکورٹ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت عدالتی معاون منیر اے ملک نے عمران خان پر توہین عدالت کی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کرے اور عمران خان کو معاف کردے۔
جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ یقین کرینگے کہ ماتحت عدلیہ کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ جیساسلوک ہوگا، آخری سماعت پر بھی کہا تھا کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے، خاتون جج کا نام لیا گیا، شیم کیا گیا، کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کو صاف کیا جائے۔
عدالتی معاون منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ عدالت کا وقار اس کے فیصلوں سے پہنچانا جاتا ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ کا جو معیار ہے کوئی اس پراثرانداز نہیں ہوسکتا۔
عدالتی معاون نے اپنے دلائل میں کہا کہ توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبوط کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے ، عدالت کی جانب سے توہین عدالت کا قانون استعمال کرتے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
اپنے دلائل میں عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ الفاظ افسوسناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں، میں آخری شخص ہوں گا جو مانوں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ پرتقریرکااثرپڑا۔
منیر ملک کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پرختم ہو سکتی ہے،ایک معافی پر یہ کارروائی ختم ہوتی ہے جبکہ دوسرا کنڈکٹ پر، انہوں نے کہا کہ یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کیلئےاحترام کا اظہارکیا گیا، یہ درست ہے کہ توہین عدالت میں سپریم کورٹ کےفیصلے موجود ہیں، یہ بات بھی مگر اپنی جگہ ہے کہ توہین عدالت کا قانون مسلسل نمُو پذیر ہے۔
منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہونے کے بعد دوسرے عدالتی معاون مخدوم علی خان بھی روسٹرم پر آئے اور انہوں نے بھی عمران خان کیخلاف توہین عدالت کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کرکےعمران خان کومعاف کردے۔