اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے 11 اضلاع اور بلوچستان کے 2 اضلاع میں تاحال سیلاب کا پانی موجود ہےجب کہ اس سے قبل جاری کیے گئے اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر کی تصویروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 80 لاکھ لوگ اب بھی ممکنہ طور پر سیلابی پانی کے باعث مشکلات سے دوچار ہیں یا سیلاب زدہ علاقوں کے قریب رہنے پر مجبور ہیں.
رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے رابطہ کار ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے کئی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سیلاب کا پانی کم ہو رہا ہے تاہم سندھ کے دادو، قمبر-شہداد کوٹ، خیرپور، میرپورخاص، جامشورو، سانگھڑ، عمرکوٹ، بدین، شہید بینظیر آباد، نوشہرو فیروز اضلاع اور بلوچستان کے دو اضلاع صحبت پور اور جعفرآباد میں سیلابی پانی تاحال موجود ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب نے صحت عامہ خاص طور پر بچوں کی صحت پر بہت گہرے منفی اثرات مرتب کیے، ناقص صفائی ستھرائی اور آلودہ پانی بچوں کی صحت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے جب کہ اسہال اور دیگر آبی امراض اب بھی پھیل رہی ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ عارضی پناہ گاہوں میں گنجائش سے زیادہ متاثرین کی موجودگی، تباہ شدہ مراکز صحت، پانی اور صفائی ستھرائی کی کمی کی وجہ سے آبی امراض کے ساتھ ساتھ جلد، سانس کی بیماریوں کے ساتھ خسرہ اور روبیلا کے خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب نے ان بنیادی خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے جو سیلب سے قبل بھی متاثرہ علاقوں میں موجود تھے، ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں کو حفاظتی ویکسین نہیں لگائی گئی اور 6 لاکھ سے زائد بچے ایسے ہیں جنہیں کبھی کسی بھی ویکسین کی ایک خوراک بھی نہیں دی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں جہاں خوراک فراہمی کی صورتحال پہلے ہی بہتر نہیں تھی وہاں صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے جب کہ لاکھوں افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جب کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں ضرورت سے بہت کم رہی ہیں، اب 51 لاکھ سے زیادہ لوگ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بے گھر ہیں ۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی آف سندھ کے مطابق 3 دسمبر تک صوبے میں 2 لاکھ 40 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر تھے جو ستمبر کے شروع میں 60 لاکھ 50 ہزار تھی، سیلاب سے بے گھر ہونے والے تقریباً 90 فیصد لوگ مبینہ طور پر میزبان برادریوں کے ساتھ ہیں جب کہ باقی لوگ خیمہ بستیوں اور ریلیف کیمپوں میں مقیم ہیں۔