پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کے معاملے پر ’مہم جوئی‘ سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹنگ نہیں ہوگی۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ آج اعتماد کے لیے ووٹنگ نہیں ہوگی اور اس حوالے سے اسپیکر نے اپنی رولنگ دے دی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک اور بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ ’پرویز الہٰی کو 187 ارکان کی مکمل حمایت حاصل ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ (ق) کے 10 رکان نے چوہدری پرویز الہیٰ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے، تحریک انصاف کے 177 ارکان کل پرویز الہیٰ کی وزارت اعلیٰ کی حمایت میں اکٹھے ہوں گے‘۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ’پنجاب میں سیاسی بحران اس حقیقت کا اظہار ہے کہ نئے انتخابات واحد حل ہیں‘۔
واضح رہے کہ گورنر پنجاب سے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس آج 4 بجے طلب کیا تھا تاہم اسپیکر کی جانب سے اجلاس نہیں بلایا گیا۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گزشتہ روز گورنر پنجاب کے اس حکم کو غیرقانونی اور آئینی کے منافی قرار دیتے ہوئے اجلاس ملتوی کردیا تھا۔
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے کہا تھا کہ گورنر کے احکامات آئین کے آرٹیکل 54(3) اور 127 سے مطابقت نہیں رکھتے جبکہ ایوان کا اجلاس آرٹیکل 54 (3) اور 127 کے تحت 23 اکتوبر 2022 سے جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اجلاس کے اختتام کے بغیر نیا اجلاس طلب نہیں کیا جاسکتا۔
وزیر اعلیٰ نے آج اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو عہدے پر برقرار نہیں رہیں گے، رانا ثنااللہ
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ نے آج اعتماد کا ووٹ نہیں لیا تو وہ عہدے پر برقرار نہیں رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا تو کابینہ فوری طور پر تحلیل ہوجائے گی اور پی ٹی آئی کی جانب سے آئین کی مزاحمت جاری رہی تو بلیغ الرحمٰن وفاق کو گورنر راج کا کہہ سکتے ہیں۔
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ گورنر جب چاہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں اور آئین کا آرٹیکل 130 بڑا واضح ہے، آئین میں لکھا ہے وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ نہ لیں تو وہ عہدے پر نہیں رہیں گے۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کا امیدوار مسلم لیگ (ن) سے ہوگا، ہماری طرف سے حمزہ شہباز ہی وزیراعلیٰ کے متفقہ امیدوار ہیں، میرےعلم میں نہیں کہ پرویزالہیٰ سے کوئی ڈائیلاگ ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوگا اور جس امیدوار کے پاس اکثریت ہوگی وہ عہدہ سنبھال لے گا اور اگر کسی امیدوار کے پاس مطلوبہ اکثریت نہ ہوئی تو رن آف الیکشن میں ایوان میں موجود اراکین کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے والا امیدوار وزیر اعلیٰ بن جائے گا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ گورنر کی اپروول کے ساتھ اپنا عہدہ برقرار رکھے گا اور گورنر اس وقت تک اپنا اختیار استعمال نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ ایک اجلاس میں چیف منسٹر کو اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہتے۔
رانا ثناللہ کا کہنا تھا کہ پرویزالہٰی خود کہہ چکے ہیں کہ 99 فیصد ارکان اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں، اس کا مطلب وہ ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں، اس صورت میں گورنر کا فرض تھا کہ وہ گورنر کو اعتماد کاووٹ لینے کا کہتے، انہوں نے اجلاس طلب کرکے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آج 4 بجے وہ اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے اور گورنر پنجاب اپنے ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد ڈیکلیریشن جاری کریں گے جس کے بعد پرویز الہیٰ نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب تک روز مرہ کے معاملات تو چلا سکتے ہیں لیکن کوئی اختیار استعمال نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ نہ لیں تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے، گورنر کی مرضی ہے جب بھی اعتماد کے ووٹ لینے کا کہہ دیں، ہمیں معلوم ہے کہ ان کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں اگر ہیں تو ووٹ آف کانفیڈینس لے لیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ تحریک انصاف کچھ بھی کرلے آئین سے مزاحمت نہیں کرسکتی، مزاحمت جاری رہی تو بلیغ الرحمٰن وفاق کو گورنرراج کا کہہ سکتے ہیں، آرٹیکل 234 کے تحت گورنر وفاق کو لکھیں گے کہ آئین پرعمل نہیں ہورہا۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی اور اسٌپیکر سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی نے ایوان کا اعتماد کھو دیا ہے۔
مزید بتایا گیا تھا کہ پرویز الٰہی نےجمہوری روایات کا قتل کیا ہے اور ان پر ایوان کے اکثر اراکین کا اعتماد نہیں رہا۔
بعد ازا گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی سے 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ بھی طلب کرلیا تھا، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری سمری کے مطابق گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ اپنے پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور ان کی اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے اراکین کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’چند ہفتے قبل پنجاب کے حکمران اتحاد پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق) کے درمیان اسمبلی کی تحلیل، ترقیاتی منصوبوں اور سرکاری عہدیداروں کے تبادلوں کے حوالے سے سنگین اختلافات سامنے آئے تھے‘۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ اختلافات کے حوالے سے حال ہی میں کابینہ کے ایک رکن کی جانب سے پرویزالہٰی کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد دیا جانے والا استعفیٰ ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ 4 دسمبر کو ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ مارچ 2023 تک صوبائی اسمبلی کہیں نہیں جارہی ہے جو پی ٹی آئی کے عوام کے سامنے موجود مؤقف کے بالکل برعکس ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ پرویز الہٰی کو اسمبلی میں اعتماد حاصل نہیں ہے اور اسی لیے اسمبلی کا اجلاس تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے آئین کی شق 130(7) کے تحت 21 دسمبر کو شام 4 بجے طلب کرلیا گیا ہے۔