امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفارت خانے کے دفاعی شعبے کے زیر استعمال رہنے والی عمارت کو خریدنے کے لیے تین بولیاں موصول ہوئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ تقریباً 68 لاکھ ڈالر کی سب سے زیادہ بولی ایک یہودی گروپ کی جانب سے لگائی گئی جو عمارت میں عبادت گاہ بنانا چاہتا ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ تقریباً 50 لاکھ ڈالر کی دوسری بولی بھارتی پراپرٹی ایجنٹ کی جانب سے لگائی جب کہ تقریباً 40 لاکھ ڈالر کی تیسری بولی پاکستانی رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کی طرف سے لگائی گئی۔
ریئلٹی مارکیٹ میں پاکستانی نژاد امریکیوں کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ بولی لگانے والی پارٹی کو عمارت دی جانی چاہیے، ایک پاکستانی رئیلٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس روایت پر عمل کرنا چاہیے، اس سے بااثر امریکی کمیونٹی جو اسے عبادت گاہ بنانے کے مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے اس میں خیر سگالی کا پیغام جائے گا۔
رواں ماہ کے شروع میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام نے ڈان کو بتایا تھا کہ واشنگٹن میں موجود ملک کی 3 سفارتی جائیدادوں میں سے ایک جائیداد جو شہر کے انتہائی اہم اور بہترین محل وقوع ’آر اسٹریٹ‘ پر واقع ہے فروخت کیے جانے کی تیاری ہے۔
حکام نے واضح کیا کہ سفارت خانے کی پرانی یا نئی بلڈنگ کو فروخت نہیں کیا جا رہا ، آر اسٹریٹ پر واقع جس عمارت کی فروخت کے لیے بولیاں موصول ہوئی ہیں وہ 1950 کی دہائی کے وسط سے 2000 کی دہائی کے اوائل تک سفارت خانے کا ڈیفنس سیکشن تھا۔
قبل ازیں پیر کے روز کابینہ کمیٹی برائے نجکاری (سی سی او پی) نے نجکاری کمیشن سے کہا کہ وہ نیویارک میں روزویلٹ ہوٹل سائٹ کو لیز پر دینے کے لیے مالیاتی مشیر مقرر کرے۔
حکومت پاکستان کی ملکیت ہوٹل کی عمارت کے ممکنہ استعمال اور ترقی کے لیے جوائنٹ وینچر پر غورو خوض کر رہی ہے، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے اس سلسلے میں ہونے والے اجلاس کی صدارت کی۔
واشنگٹن میں موجود سفارتخانے کے حکام نے ڈان کو بتایا کہ وہ اس بات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں کہ عمارت کو جہاں ہے جیسی ہے کی بنیاد پر فروخت کرنا بہتر ہے یا اس کی تزئین و آرائش کے بعد اس کو فروخت کرنا زیادہ نفع بخش ہے۔
سفارت خانے کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں اور ہم کوئی ایسا معاہدہ نہیں کریں گے جس سے پاکستان کو فائدہ نہ ہو، وفاقی کابینہ پہلے ہی عمارت کو فروخت کرنے کی منظوری دے چکی ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹس کی گئیں تصاویر اور ویڈیوز میں 2 عمارتیں دکھائی گئی، ایک عمارت موجودہ ایمبیسی کی تھی جب کہ دوسری عمارت پرانے سفارت خانے کی، ان پوسٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ دونوں عمارتیں بھی فروخت کے لیے تیار ہیں۔
لیکن سفارت خانے کے حکام نے کہا کہ ان دونوں عمارتوں میں سے کوئی بھی عمارت فروخت کرنے کے لیے مارکیٹ میں نہیں ہے، موجودہ سفارت خانہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں تعمیر کی گئی نئی عمارت میں ہے جب کہ پرانا سفارت خانہ شہر کے وسط میں واقع میساچوسٹس ایونیو پر بھارتی سفارت خانے کے قریب ہے۔
سفارت خانہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں نئی عمارت میں منتقل ہوا لیکن پرانی عمارت کو بھی برقرار رکھا گیا اور اس عمارت اور قریب میں واقع سفیر کی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر تقریباً 70 کروڑ ڈالر خرچ کیے گئے۔
عمارت کی تزئین و آرائش پر خرچ ہونے والی خطیر رقم نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا اور اس بات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا کہ اتنی رقم کیسے خرچ کی گئی اور اخراجات اتنے زیادہ کیوں ہوئے، آر اسٹریٹ واقع عمارت کی کبھی تزئین و آرائش نہیں کی گئی اور اس عمارت کا دورہ کرنے سے اس کی خستہ حال صورتحال سامنے آئی۔
علاقے کے دیگر رہائشیوں نے تصدیق کی کہ انہوں نے مقامی حکام سے عمارت کی خستہ حالت کے بارے میں شکایت کی جو کہ ان کے بقول اب ایک خطرہ بن چکی ہے، ر اسٹریٹ کی عمارت سفیر سید امجد علی نے 1953 سے 1956 کے درمیان خریدی تھی۔
سفارت خانے کی پرانی عماعت امریکا میں پاکستان کے پہلے سفیر ایم اے ایچ اصفہانی نے خریدی تھی، دونوں عمارتیں تقریباً 20 برس سے خالی پڑی ہیں، ایک سابق پاکستانی سفیر نے ڈان کو بتایا کہ 2 سفرا جلیل عباس جیلانی اور شیری رحمٰن سفارت خانے کی پرانی عمارت کو فروخت کرنے کے معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن میڈیا میں تنقید کے بعد حکومت اس معاملے سے پیچھے ہٹ گئی، ایک سابق سفیر نے کہا کہ ذاتی طور پر میں تمام خالی عمارتوں کو فروخت کرنے کے حق میں ہوں۔
سفارتی عہدیدار نے کہا کہ ہم پہلے ہی ان عمارتوں کو اتنے عرصے تک رکھ کر بہت پیسہ ضائع کرچکے لیکن عہدیدار نے اس طرح کی خبروں کو مسترد کردیا جن میں کہا گیا تھا کہ سفارت خانہ اپنے سفارتی اور دیگر عملے کو تنخواہ ادا نہیں کرپارہا اور اسی وجہ سے وہ اپنی جائیدادیں فروخت کر رہا ہے، عہدیدار نے کہا کہ سفارت خانے کے ہر ملازم کو وقت پر ادائیگی کی جاتی ہے۔