چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کیا چاہتی ہے کہ ان کے 100 فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہو جائیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کے متعلق توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست کے جواب میں آئی رپورٹ پڑھی؟ کوئی تقریر نہیں ، صرف بتائیں اس رپورٹ میں کیا غلط ہے؟۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق آپ کے 1195 لوگوں نے کاغذات جمع کروائے، ہمارے سامنے رپورٹس ہیں، جن کے مطابق پی ٹی آئی کے 76 فیصد لوگوں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے، الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کے زیادہ تر لوگوں کے کاغذات منظور ہی ہوئے ہیں۔
عدلیہ کے ساتھ اختلاف رائے ہر شہری کا حق ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ان رپورٹس کو جھٹلا رہے ہیں تو جواب میں تحریری طور پر کچھ لانا ہو گا، کھوسہ صاحب آپ یہاں کھڑے ہو کر رپورٹ کو مسترد نہیں کر سکتے، اگر الیکشن کمیشن نے غلط بیانی کی ہے تو آپ تحریری جواب جمع کروائیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا پی ٹی آئی کے فرنٹ لائن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور نہیں ہوئے، جسٹس مظہر نے کہا آپ اپنے جواب میں خود کہہ رہے ہیں کہ ٹربیونلز نے آپ کو ریلیف دیا۔
چیف جسٹس نے کہا پی ٹی آئی کیا یہ چاہتی ہے کہ 100 فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہو جائیں؟ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی کو الیکشن چاہئیں؟ لگتا ہے ،آپ انتخابات کا التواء چاہتے ہیں ، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ 100 فیصد الیکشن چاہئیں۔
پی ٹی آئی کے لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہ کرنیکے الزامات درست نہیں، الیکشن کمیشن کا سپریم کورٹ میں جواب
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کروانا ہے، یہ ادارے پارلیمان نے ہی بنائے ہیں، ان اداروں کی قدرکریں،ان کے بیان کردہ حقائق غلط ہیں تو تردید کریں۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آپ کے الزامات پر تردیدی جواب آ جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں یہ درست نہیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ دفعہ 144 لگا کر ہمارے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم حکومت نہیں، سپریم کورٹ ہیں، ہم کسی کی کمپئین نہیں چلا رہے، دفعہ 144 اور ایم پی او سب کیلئے ہو گا ، صرف پی ٹی آئی کیلئے نہیں، ہمارے سامنے نہ دفعہ 144 نہ ہی ایم پی او کو چیلنج کیا گیا ہے۔
کوٹہ پر صرف سرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکری کیوں ؟ ایسی پالیسی کو اٹھا کر پھینک دینا چاہئے ، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو پاکستان کے کسی ادارے پر اعتبار نہیں تو ہم کیا کریں، یہ کوئی سیاسی فورم نہیں، عدالت کے سامنے دکھڑے نہ سنائیں، بہت سے سیاسی فورم ہیں انھیں استعمال کریں، سب سے زیادہ درخواستیں پی ٹی آئی کی آ رہی ہیں اور سنی بھی جا رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن مقدمات بھگتے یا انتخابات کرائے۔
بعد ازاں عدالت نے الیکشن کمیشن کی رپورٹ پر جواب کیلئے پی ٹی آئی کو 3 دن کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 15 جنوری تک ملتوی کر دی۔