مالی اعدادوشمار پر پاکستانی مذاکرات کاروں اور آئی ایم ایف کے مابین اختلاف ابھر آیا ہے لیکن حکومت نے تاحال موجودہ مالی سال کے باقی ماندہ عرصے کے دوران کسی ضمنی بجٹ کے ذریعے کوئی اضافی ٹیکس لگانے میں تذبذب کا مظاہرہ کیا ہے ۔
بجٹ خسارےکے ہدف پر نظر ثانی ممکن ہے لیکن آئی ایم ایف پاکستانی حکام سے کہہ رہا ہے کہ وہ بنیادی سرپلس کو یقینی بنانے پر عمل پیرا رہیں ۔
آئی ایم ایف نے پنجاب کی مالی حیثیت کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے کہا ہےکہ وہ مطلوبہ آمدن اکٹھی کرنے اور اپنےبے لگام اخراجات کو لگام ڈالنے میں ناکام رہا ہے، بات چیت کے دوران یہ چیزبھی سامنے آئی کہ ایف بی آر کو پنجاب میں ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات تفویض کیے جانے چاہیں اور جب یہ جمع ہو جائیں تو پھر یہ محصولات جمع کرنے کی فیس کاٹ کر ملک کے اس سب سے زیادہ آبادی والے صوبے کے حوالے کرنے چاہئیں۔
آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ مالی وفاقیت کو بہتر بنایا جائے اور اس نے تجویز دی ہے کہ مرکز اور صوبوں کے اتفاق رائے سے عبوری بنیادوں پر این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کی جائے۔
فی الوقت آئی ایم ایف صوبوں کی وفاقی حکومت کے ساتھ مفاہمت کی یاداشت بہتر بنانے سمیت بہتررابطہ کاری کے ذریعے مالی سال 2024 کے بجٹ اہداف کی ضمانت اور ا س کے مکمل نفاذ کاخواہاں ہے۔
پنجاب حکومت نے اس حوالے سے مفاہمت کی ایک یادداشت کے ذریعے اپنے اخراجات میں 115 ارب روپے کی کٹوتی کا وعدہ کررکھا ہے جس سے مالی سال 2024 کے باقی ماندہ عرصے میں سرپلس حاصل کیاجائےگا۔
صوبائی حکومتوں نے ایک عشرہ طویل عرصے میں جمع ہونے والے اشیا کےقرض کی توثیق اور ایک نظام الاوقات کے ذریعے اس قرض کے نفاذ اور بالآخر اس کی ادائیگی پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
یہ قرض صوبائی محکمہ ہائے خوراک نے پیدا کیا ہے جو حکومتی مالیاتی حدود سے باہر نکل کر کام کرتے رہے۔تاہم آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ کہ پرچون فروشوں کےلیے ایک سادہ ٹیکس اسکیم لائی جائے سن کر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو آخری لمحے میں ایک اور اجلاس میں شرکت کےلیے بھاگنا پڑا۔
وہ مالی محاذ پر آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے جمعہ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوپائے۔ چنانچہ اب انہیں پرچون فروشوں پر ٹیکس عائد کرنے کی اسکیم کے حوالے سے حکومتی ارادوں کے حوالے سے آگاہ کرنا ہوگا۔ حکومت پرچون فروشوں پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے پہلے ہی گزشتہ بجٹ کے دوران ٹیکس قوانین میں یہ اختیار حاصل کرچکی ہے۔
اس اسکیم میں پارلیمنٹ سے کسی قانونی منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن نواز لیگ کی قیادت میں چلنے والی حکومت اپنی سیاسی ساکھ بچانے کےلیے دکانداروں پر ٹیکس لگانے کی منظوری دینے میں متذبذب نظر آرہی ہے۔
آئی ایم ایف نے مارچ سے جون کے چار ماہ کے دوران مختلف تخمینے دکھائے جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ یہ وزارت خزانہ نے شیئر کیے ہیں تاہم ایف بی آر نے وضاحت کی ہے کہ وہ 9415 ارب روپے کا سالانہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرلے گااور اس حوالے سے کسی ضمنی بجٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔
ایک بھرپور مباحثے کے بعد آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے کہا کہ وہ اپنا ماہانہ ہدف وقت پرشیئر کریں اور اگر ضرورت پڑے تو اضافی ٹیکس کے اقدامات لیے جائیں۔
آئی ایم ایف نے ایف بی آر کےلیے یہ لازمی قرار دے دیا ہے کہ وہ اپریل تک حاصل ہونے والے محصولات 3 مئی 2024 تک شیئر کرے۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے سرکردہ افسران کو یاددلایا کہ ایف بی آر نے صوبائی دارالحکومتوں اور وفاقی دارالحکومت میں گھرگھرجاکر نان فائلرز پرچون فروشوں کی رجسٹریشن کا منصوبہ بنایا تھا۔
اس منصوبے کے تحت کراس ریفرنسنگ کے ذریعے بجلی کے میٹر کے ڈیٹا کے ساتھ فائلنگ کرنا مقصود تھا تاکہ ایف بی آر ٹیکس سے بچنے کے حربوں کا پتہ چلاسکے اور جب ضرورت ہو تو اس کا آڈٹ کر سکے۔
ایف بی آر کا منصوبہ ہے کہ وہ سخت نگرانی اور یک بیک آڈٹ کے ذریعے اپنے حفاظتی اقدامات نافذ کرےتاکہ ادائیگیوں اور قدر کے معاملات کی درستی کی تصدیق ممکن ہوسکے۔
اس اسکیم کو لانچ کرنے کے حوالے سے ایف بی آر کا ارادہ یہ تھاکہ اس میں فیلڈ افسران کی صوابدید کم سے کم ہو اور وہ تعین قدر اور تخمینوں کو تبدیل نہ کرسکیں تاکہ ان اقدامات سے ٹیکس آمدن کو تحفظ دیاجاسکے۔
دہری ٹیکسیشن سے بچنے کیلئے ماہانہ ایڈوانس ٹیکس ادائیگیاں اس اسکیم کے تحت ہوں گی جو ریٹرن فائلنگ کے وقت حتمی انکم ٹیکس واجبات کو ختم کردیاکرےگا لیکن اس قسم کی ایڈوانس ادائیگیوں کا کوئی ریفنڈ نہیں ہوگا۔
مزید برآں ایف بی آر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہے کہ وہ طے شدہ کارکردگی کے اشاریوں پر آئی ایم ایف کو ماہانہ ڈیٹا بروقت دیاکرے گا ۔
غیر محصولاتی آمدن کے ہدف کے حوالے سے آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کے تخمینوں میں بہت فرق پایاجاتا ہے۔ آئی ایم ایف نے بڑھتے ہوئے اخراجات پر بشمول قرض کی ادائیگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سمیت دیگر اخراجات کا حوالہ بھی دیاجس کے نتیجے میں وفاقی حکومت سے بجٹ خسارے کا طے شدہ ہدف بڑھ رہا ہے اور جس پر نظر ثانی کرنا پڑ سکتی ہے اور جو جی ڈی پی کی 7.9 کی شرح تک پہنچ سکتا ہے۔