مصطفیٰ کمال نے ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا

مصطفیٰ کمال نے ملک کے ابتر معاشی حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے اکنامک ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس ایمرجنسی کی ابتدا اس ہاؤس (یعنی قومی اسمبلی) سے ہونی چاہیے۔ انہوں نے وزیر خزانہ اور اپوزیشن لیڈر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بجٹ پیش کرنے والے ہمیشہ اس کی تعریف کرتے ہیں، جبکہ اپوزیشن میں موجود لوگ ہمیشہ بجٹ کی مخالفت ہی کرتے ہیں۔

ان کے مطالبے کے پیچھے مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں، جیسے معاشی بحران، مالیتی فساد، یا حکومت کے طریقے کار کے خلاف اظہار تنقید۔ ایسی صورت میں اکنامک ایمرجنسی کا مطالبہ عوامی نظریات کو متاثر کرتا ہے اور مختلف سیاسی جماعتیں اس پر مختلف انداز میں واک رکھتی ہیں

ان کا کہنا تھا کہ ایوان میں موجود افراد بار بار اِدھر اور اُدھر بیٹھ چکے ہیں، ہمارے اس رویے سے ملک کا کوئی فائدہ ہوا نہیں ہے، پاکستان پر 78 ہزار 942 ارب کا قرضہ ہے۔

مصطفیٰ کمال نے ملک کے گھبیر معاشی حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس کی ابتدا اس ہاؤس سے ہونی چاہیے۔

ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ ایمرجنسی کا اعلان کرنے کے بعد یہ جو ہم 78 ہزار ارب لوگوں سے مانگنے جا رہے ہیں، اس سے پہلے ملک کا قرض اتارنے کے لیے پاکستان کے رہنما نواز شریف، عمران خان اور آصف زراری، مولانا فضل الرحمٰن صاحب سیت تمام اراکین پارلیمنٹ اپنی جیبوں سے جمع کرائیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے پاس رائیونڈ کا محل ہے، عمران خان کے پاس بنی گالا ہے، زرداری صاحب کے پاس تمام شہروں میں بلاول ہاؤسز ہیں تو سارے ایک ایک گھر پاکستان کو عطیہ کردیں، نواز شریف رائیونڈ والا گھر دے دیں، عمران خان بنی گالا دے دیں، زرداری صاحب ایک بلاول ہاؤس دے دیں اور ہم دیگر اراکین پارلیمنٹ اپنی 25 فیصد جائیدادیں پاکستان کے لیے عطیہ کرتے ہیں۔

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ تمام ریٹائرڈ فوجی افسران، تمام حاضر سروس جرنیل جو کہ جن کے پاس جب یہ ریٹائر ہوتے ہیں تو ان کے پاس 150 ارب روپے کی جائیدادیں ہوتی ہیں، 50، 50 کروڑ روپے پاکستان کو عطیہ کریں، یہ سب جرنیل، سیاستدان اور اراکین پارلیمنٹ 1000 ارب روپے قرض کی ادائیگی کے لیے جمع کرکے دکھائیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے یہ کردیا تو پاکستان کے غیور عوام اپنے کپڑے بیچ پر بھی ملک کا قرض اتاریں گے، وہ سمجھیں گے کہ جو ہم سے ٹیکس مانگ رہے ہیں، وہ بھی کچھ قربان کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں