بنگلا دیش میں ہونے والے پرتشدد احتجاج کے دوران 32 طلبہ کی ہلاکت پر تحقیقات کیلئے عدالتی کمیٹی بنانے کا اعلان

بنگلا دیش میں ہونے والے پرتشدد احتجاج کے دوران درجنوں طلبہ کی ہلاکت کی تحقیقات کیلئے وزیر اعظم حسینہ واجد نے عدالتی کمیٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔

غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلا دیش میں طلبہ نے سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے، کئی شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد 32 ہو گئی جن میں ایک صحافی بھی شامل ہے، وزیر اعظم حسینہ واجد نے ہلاکتوں کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیٹی بنا دی ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق 2500 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، مختلف ہسپتالوں میں 150 سے زیادہ طلباء اور مظاہرین زیرعلاج ہیں، زیادہ تر زخمیوں کی آنکھوں میں ربر کی گولیاں لگی ہیں، احتجاج کا دائرہ کار پھیلنے کی وجہ سے ملک کے کئی علاقوں میں موبائل، ٹیلی فون سروسز اور انٹرنیٹ معطل ہے، ڈھاکا کا زمینی رابطہ بھی منقطع ہو کر رہ گیا ہے۔

ہنگامی صورتحال کے پیش نظر ہسپتالوں اور ریسکیو اداروں کو تاحکم ثانی کھلا رکھنے فیصلہ کیا گیا ہے، ایمبولینسز کو سڑکوں سے گزرنے کی اجازت ہوگی، مظاہرین کی جانب سے سرکاری ٹی وی کے ہیڈ کوارٹرز کو آگ لگا دی گئی جس میں کئی لوگ محصور ہیں۔

واضح رہے کہ بنگلا دیش میں طلبہ نے کوٹہ سسٹم کیخلاف چند روز سے احتجاج شروع کر رکھا ہے جو ملک کے مختلف حصوں میں پھیل گیا ہے، طلبہ کا موقف میں کہنا ہے کہ سرکاری نوکریاں میرٹ پر دی جائیں اور صرف 6 فیصد کوٹہ جو اقلیتوں اور معذور افراد کیلئے مختص ہے اسے برقرار رکھا جائے۔

یاد رہے کہ کوٹہ سسٹم میں 30 فیصد سرکاری ملازمتیں بنگلہ دیش کی 1971ء کی آزادی کی جنگ میں لڑنے والوں کے خاندانوں کیلئے مختص ہے جبکہ طلبہ نظام میں اصلاحات اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کی زیادہ منصفانہ تقسیم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں